ستم ظریفی وقت نے
کلیوں کی نزاکت کو
دلوں کی محبت کو
اس طرح سے مسلا ہے
اس طرح سے کچلا ہے
زندگی اذیت ہے
سانس کی بھی قیمت ہے
کس کا ہاتھ ہے
جو خوں سے رنگا نہیں
کس کا گریباں ہے
جو گرفت سے بچا نہیں
صدائے موت آتی ہے
شہر بھر کی گلیوں سے
خوں کی بو آتی ہے
پھولوں اور کلیوں سے