تجھ کو بُھولے ہیں تو کچھ دوش زمانے کا نہ تھا
اب کے لگتا ہے کہ یہ دکھ ہی ٹھکانے کا نہ تھا
یہ جو مقتل سے بچا لائے سروں کو اپنے
ان میں اک شخص بھی کیا میرے گھرانے کا نہ تھا
ہر برس تازہ کِیا عہدِ محبت کو عبث
اب کُھلا ہے کہ یہ تہوار منانے کا نہ تھا
اب کے بے فصل بھی صحرا گل و گلزار سا ہے
ورنہ یہ...