یہ دونوں بحور گڈمڈ ہو جایا کرتی ہیں۔ پچھلے دنوں وہ جو فی البدیہہ طرح شعر کا سلسلہ تھا، اُس میں مجھے سے بھی ہو گئی پھر میں نے مزمل شیخ بسمل سے بھی مشورہ کیا کہ کیا ہو۔
توجہ تو بہر حال دینی پڑے گی۔
میرا نہیں خیال کہ میں یہاں سارے سخن وروں سے کما حقہ واقف ہوں۔ ویسے بھی مطالعہ کے معاملے میں اپنا ہاتھ کچھ تنگ رہتا ہے۔ میری معذرت قبول فرما لیجئے کہ یہی مناسب ہے۔ ایسے فیصلوں اور سفارشات کے لئے جس سطح کا احاطہ لازمی ہوتا ہے، میں اس پر پورا نہیں اتر رہا اور ۔۔۔ یہ میں کسی کسرِ نفسی سے کام نہیں لے...
سارے قطعات اچھے ہیں، اور مضبوطی سے بنے گئے ہیں۔ مزید جناب الف عین صاحب۔
ہاں، اس قطعے کا پہلا مصرع مجھے وزن سے خارج محسوس ہو رہا ہے:
دیکھ لیجئے گا۔
شاہد شاہنواز
باتیں کیا کریں عزیزہ! آپ نے تو پہلے ہی فرما دیا کہ
اور ظاہر ہے یہ اپنے لئے نہیں دوسروں کے لئے فرمایا ہے بلکہ خاص طور پر مردوں کے لئے (مَ پڑھئے گا، مُ نہیں)!
کہ خواتین سے تو ایسا مطالبہ ہی غیرفطری بات ہے۔
بہت مشکل ہے ماہا عطا ۔۔۔ ایک جملے میں بات کرنا کوئی ایسا آسان ہے بھلا؟
ہاں، شیخ فخرالدین عراقی کا یہ مطلع حاضر ہے:
در حلقۂ فقیراں، قیصر چہ کار دارد؟
در دستِ بحر نوشاں، ساغر چہ کار دارد؟
فقیروں کی مجلس میں قیصر (و کسریٰ، بادشاہوں) کا کیا کام، دریا نوشوں کے ہاتھ میں ساغر کا کیا کام۔
بہ...