رقص کر رقص !!
کہ یہ سوزشِ دیرینہ تھمے ..
معبدِ جسم میں خواہش کی بھڑکتی آتش ..!
ہجر کے سوگ میں روئی ہوئی آنکھوں کی جلن اور چبھن !
پاؤں سے باندھی ہوئی دشت و بیاباں کی مسافت کی تھکن !
کھول !!
کھول یہ بے سر و سامانی کی گٹھری ! اور دیکھ !
کیسی نایاب تمنّاؤں کے اجلے موسم !!
کاسنی رنگ میں بھیگے ہوئے...