ہم دل میں تری چاہ زیادہ نہیں رکھتے
لیکن تجھے کھونے کا اِرادہ نہیں رکھتے
کچھ ایسے سُبک سر ہوئے ہم اہلِ مُسافت
منزل کے لئے خواہشِ جادہ نہیں رکھتے
وہ تنگئ خلوت ہوئی اب تیرے لئے بھی
دل رکھتے ہوئے سینہ کُشادہ نہیں رکھتے
کِس قافلۂ چشم سے بچھڑے ہیں کہ اب تک
جُز دَربدری کوئی لبادہ نہیں رکھتے
واہ
حسین انتخاب
آنکھوں میں ستارے تو کئی شام سے اترے
پر دل کی اداسی نہ در و بام سے اترے
کچھ رنگ تو ابھرے تری گل پیرہنی کا
کچھ زنگ تو آئینہء ایام سے اترے
ہوتے رہے دل لمحہ بہ لمحہ تہہ و بالا
وہ زینہ بہ زینہ بڑے آرام سے اترے
جب تک ترے قدموں میں فروکش ہیں سبو کش
ساقی خطِ بادہ نہ لبِ جام سے اترے
بے طمع نوازش بھی...
محمداحمد بھائی
تیز ترین سروس
یہ لیں
ہم تو زینہ بہ زینہ مگر بہت آرام سے اور کبک دری کی چال کے حسین امتزاج پہ عمل پیرا ہو کر اور اپنی زندگی کو اسی کے پیرائے میں آراستہ و پیراستہ کر کے قبلہ محمد احمد صاحب وہاں تک پہنچیں گے اور مجھے قوی امید ہے کہ آپ میری اس لغزشِ مستانہ کو ادائے غافلانہ سے ہرگز...
ارے جناب احمد فراز صاحب کے علاوہ کس کا ہو سکتا ہے
پوری غزل دیکھیے
آنکھوں میں ستارے تو کئی شام سے اترے
پر دل کی اداسی نہ در و بام سے اترے
کچھ رنگ تو ابھرے تری گل پیرہنی کا
کچھ زنگ تو آئینہء ایام سے اترے
ہوتے رہے دل لمحہ بہ لمحہ تہہ و بالا
وہ زینہ بہ زینہ بڑے آرام سے اترے
جب تک ترے قدموں...
بڑے اور عظیم انسانوں کی کچھ ایسی ہی خوبیاں تو انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں۔
آہ
مولانا ظفر علی خان یاد آ گئے کہ
گھر گھر میں چرچے ہیں کہ اقبالؒ کا مرنا
اسلام کے سر پہ ہے قیامت کا گزرنا