ہم اشکِ غم ہیں، اگر تھم رہے رہے نہ رہے
مژہ پہ آن کے ٹک جم رہے رہے نہ رہے
رہیں وہ شخص جو بزمِ جہاں کی رونق ہیں
ہماری کیا ہے اگر ہم رہے رہے نہ رہے
مجھے ہے نزع، وہ آتا ہے دیکھنے اب آہ
کہ اس کے آنے تلک دم رہے رہے نہ رہے
بقا ہماری جو پوچھو تو جوں چراغِ مزار
ہوا کے بیچ کوئی دم رہے رہے نہ رہے...
کر لیتے الگ ہم تو دل اس شوخ سے کب کا
گر اور بھی ہوتا کوئی اس طور کی چھب کا
بوسہ کی عوض ہوتے ہیں دشنام سے مسرور
اتنا تو کرم ہم پہ بھی ہے یار کے لب کا
(نظیر اکبر آبادی)