ہم آہوانِ شب کا بھرم کھولتے رہے
میزان ِ دلبری پہ انہیں تولتے رہے
عکسِ جمالِ یار بھی کیا تھا، کہ دیر تک
آئینے قُمریوں کی طرح بولتے رہے
کل شب ہمارے ہاتھ میں جب تک سُبو رہا
اسرار کتمِ راز میں پر تولتے رہے
کیا کیا تھا حل مسئلۂ زندگی میں لطف
جیسے کسی کا بندِ قبا کھولتے رہے
ہر شب شبِ سیاہ تھی...