دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے
ہم بھی پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے
اس بستی میں کون ہمارے آنسو پونچے گا
جسکو دیکھو اسکا دامن بھیگا لگتا ہے
دنیا بھر کی یادیں ہم سے ملنے آتیں ہیں
شام ڈھلے اس سونے گھر میں میلہ لگتا ہے
کس کو پتھر ماروں ناصر کون پرایا ہے
شیش محل میں اک اک چہرہ اپنا لگتا