ڈاکٹر صاحب کی نظم
میں ٹرین کی برتھ پہ لیٹا یہ سوچ رہا تھا
یہ گاڑی کب پہنچے گی منزل
کہاں کہاں سے چکر لگاتی
کس کس دیس سے ہوتی جاتی
ہلکے ہلکے اور تیز ہی تیز
کھیتوں دریاؤں سے ہوتی
پل اور سرنگوں سے فراٹے بھرتی
دن اور رات میں چلتے چلتے
ہری اور لال بتی کے سہارے
چلتی جائے چلتی جائے
میری یہ زندگی بھی...