سپنے جھڑے پھول سے
میت چبھے شول سے
لٹ گئے سنگھار سبھی
باغ کے ببول سے
اور ہم کھڑے کھڑے بہار دیکھتے رہے
کارواں گزر گیا غبار دیکھتے رہے
نیند بھی کھلی نہ تھی کہ ہائے دھوپ ڈھل گئی
پاؤں جب تلک اٹھے کہ زندگی پھسل گئی
پات پات جھڑ گئے کہ شاخ شاخ جل گئی
چاہ تو نکل سکی نہ پر عمر نکل گئی
گیت اشک بن گئے...