عارض نہ تری زلفِ پریشان میں دیکھا
یوسف کو زلیخا کے زندان میں دیکھا
سر کھینچے تھا شعلہ سا مرے دل سے فلک تک
میں طرفہ تماشا شبِ ہجران میں دیکھا
ہرگز نہ رہا ہاتھ مرا جامہ دری سے
اِک چاک نیا روز گریبان میں دیکھا
میں کوئی پسِ مرگ بھی آسودہ نہ پایا
عالم کے تئیں خوابِ پریشان میں دیکھا
گر تو بھی...