ہو کر سوار توسنِ عمرِ رواں پہ آہ
ہم اس سرائے دہر میں کیا آئے کیا چلے
قاتل جو تیرے دل میں رکاوٹ نہ ہو تو کیوں
رک رک کے میرے حلق پہ خنجر ترا چلے
لبریز ہو گیا مرا شاید کہ جامِ عمر
تم وقتِ نزع مجھ سے جو ہو کر خفا چلے
کیا دیکھتا ہے؟ ، ہاتھ مرا چھوڑ دے طبیب
یاں جان ہی بدن میں نہیں، نبض کیا چلے...