خزاں کی دھند میں لپٹے ہوئے ہیں
شجر مجبوریاں پہنے ہوئے ہیں
یہ کیسی فصلِ گل آئی چمن میں
پرندے خوف سے سہمے ہوئے ہیں
ہواؤں میں عجب سی بےکلی ہے
دلوں کے سائباں سمٹے ہوئے ہیں
ہمارے خواب ہیں مکڑی کے جالے
ہم اپنے آپ میں الجھے ہوئے ہیں
دمکتے، گنگناتے موسموں کے
لہو میں ذائقے پھیلے ہوئے ہیں
مری صورت...