ریاض مجید غزل: رات دن محبوس اپنے ظاہری پیکر میں ہوں

رات دن محبوس اپنے ظاہری پیکر میں ہوں
شعلۂ مضطر ہوں میں لیکن ابھی پتھر میں ہوں

اپنی سوچوں سے نکلنا بھی مجھے دشوار ہے
دیکھ میں کس بے کسی کے گنبدِ بے در میں ہوں

دیکھتے ہیں سب مگر کوئی مجھے پڑھتا نہیں
گزرے وقتوں کی عبارت ہوں عجائب گھر میں ہوں

جرم کرتا ہے کوئی اور شرم آتی ہے مجھے
یہ سزا کیسی ہے میں کسی عرصۂ محشر میں ہوں

تجھ کو اتنا کچھ بنانے میں مرا بھی ہاتھ ہے
میری جانب دیکھ میں بھی تیرے پس منظر میں ہوں

میرا دکھ یہ ہے میں اپنے ساتھیوں جیسا نہیں
میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں

کون میرا پوجنے والا ہے جو آگے بڑھے
میں اکیلا دیوتا جلتے ہوئے مندر میں ہوں

٭٭٭
ریاض مجید
 
Top