تُم ہی کہو کیا کرنا ہے
جب دُکھ کی ندیا میں ہم نے
جیون کی ناؤ ڈالی تھی
تھا کتنا کس بل بانہوں میں
لوہُو میں کتنی لالی تھی
یُوں لگتا تھا دو ہاتھ لگے
اور ناؤ پُورم پار لگی
ایسا نہ ہُوا ، ہر دھارے میں
کچھ ان دیکھی منجدھاریں تھیں
کچھ مانجھی تھے انجان بہت
کچھ بے پرکھی پتواریں تھیں
اب جو بھی چاہو چھان...
پھر محّرک ستم شعاری ہے
پھر انہیں جستجو ہماری ہے
پھر وہی داغ و دل سے صحبت گرم
پھر وہی چشم و شعلہ باری ہے
پھر وہی جوش و نالہ و فریاد
پھر وہی شورِ آہ و زاری ہے
پھر خیالِ نگاہِ کافر ہے
پھر تمنائے زخم کاری ہے
پھر وہاں طرزِ دلنوازی ہے
پھر یہاں رسمِ جاں نثاری ہے
پھر وہی بے قراریِ تسکیں
پھر...
چھوٹے چھوٹے سے مفادات لئے پھرتے ہیں
دربدر خود کو جو دن رات لئے پھرتے ہیں
اپنی مجروح اناؤں کو دلاسے دے کر
ہاتھ میں کاسہءِ خیرات لئے پھرتے ہیں
واہ واہ کیا انتخاب ہے۔ حق ہے۔ اور حق کو کون سنتا ہے بھائی۔ شکریہ محسن صاحب!
جس کو سمجھا آشنا، نکلا غرض کا آشنا
دل ہے افسردہ نہایت گرمیِ احباب سے
کس کی زلفِ خم بہ خم پھر لے گئے تاب و قرار
شیفتہ پھر کچھ نظر آتے ہو تم بیتاب سے
(شیفتہ)