نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی
نہ تن میں خون فراہم نہ اشک آنکھوں میں
نمازِ شوق تو واجب ہے بے وضو ہی سہی
کسی طرح تو جمے بزم میکدے والو
نہیں جو بادہ و ساغر تو ہاؤ ہو ہی سہی
گر انتظار کٹھن ہے تو جب تلک اے دل
کسی کے وعدہء فردا کی گفتگو ہی سہی
دیارِ غیر میں محرم...
واہ! کیا خوبصورت غزل ہے یہ تین اشعار بہت پسند آئے۔
چلئے کچھ گھاٹے کا سودا تو نہیں
گر خدا مل جائے کوہِ طور تک
یاں سے لے کر تا عدم امیدوار
رند نہ ہو جائیں باغِ حور تک
بارے فاتح چشمۂ حیرت لگا
اب نظر جانے لگی ہے دور تک
بہت سی داد منیب احمد فاتح صاحب!
مراسم اِس لیے پیدا کیے دربان سے پہلے
کہ دروازہ بھی آتا ہے کِسی کے لان سے پہلے
ویسے بہت سے لوگ جو ایسا کرتے ہیں وہی ہر جگہ کامیاب اور دھڑلے سے رہتے ہیں۔
عشق اپنے مجرموں کو پابجولاں لے چلا
دار کی رسیوں کے گلوبند گردن میں پہنے ہوئے
گانے والے ہر اِک روز گاتے رہے
پایلیں بیڑیوں کی بجاتے ہوئے
ناچنے والے دھومیں مچاتے رہے
ہم نہ اس صف میں تھے اور نہ اُس صف میں تھے
راستے میں کھڑے اُن کو تکتے رہے
رشک کرتے رہے
اور چُپ چاپ آنسو بہاتے رہے
لوٹ کر آ کے دیکھا...
جناب آپ نے محی الدین ابنِ عربی کی کتاب کا اقتباس نہیں پڑھا؟ میں نے تو اسی بات کو نقل کیا ہے۔ واہ صاحب۔ یعنی ابنِ عربی کہے تو ٹھیک، ہم کہیں تو غلط۔ :) ویسے ابنِ عربی کو کبھی سنجیدگی سے پڑھیے گا ایسے بہت سے اقتباسات مل جائیں گے۔