بہت اچھی بات ہے لیکن حکومت کو ایک حوصلہ اور بھی کرنا چاہیے۔ اچھے الفاظ میں کہے ' ہم نے پچھلی سوچ سے رجوع کر لیا ہے' یا پھر عوامی زبان میں یہ کہ 'پہلے ہم بکواس کرتے تھے'۔
مندرجہ بالا سارے بیانیے ٹھیک ہیں لیکن ایک جو بیان نہیں ہوا لیکن ہے وہ اصلی تے سُچا بیان۔
پچھلے دو سال میں جس بھی ریٹائرڈ جرنیل کو سٹیل مل آفر کی گئی اس نے انکار کر دیا۔ خلی ولی
:nerd::nerd:
سنا تھا کہ دو کشتیوں کا مسافر کہیں کا نہیں رہتا پر آپ تو پانچ سات کشتیوں میں ایک ہی دن سوار کرانا چاہتے ہیں۔ اور پھر آخر میں پڑھنا بھی باب الفتن ہے۔
۔۔۔
یہ پورا پیراگراف لطف دے گیا۔ نشہ مزید دو آتشہ ہوتا کہ کہیں راہ میں گیارہویں شریف کا لنگر بھی آفر کرتے اور بابا جی خادم حسین...
مراسلہ اول میں سید صاحب نے کسی کتاب کا ذکر نہیں کیا تھا۔ بلکہ
ایسے میں یہ بھی سوچا جا سکتا ہے کہ امام احمد رضا صاحب نے سرسید صاحب کے رسالے کے مقابلے میں اپنا رسالہ لکھا تاکہ علم کے متلاشی سرسید کے رسالے سے مرعوب ہو کر ان کے دیگر نظریات کو بھی من وعن قبول نا کرنا شروع کردیں۔
پٹرولیم کمپنیوں کے مطابق حکومت نے تیل سستا کرنے کے باوجود اپنے ٹیکسز و محصولات میں اوسطاً 7 روپے فی لیٹر کا اضافہ کیا ہے۔ اور پٹرولیم کمپنیوں کے منافع میں کمی۔ اسے جواب آں غزل سمجھا جائے۔
زیک، کیا ہم یہ طے کر چکے کہ اس زمانے میں کوپرنیکس کے نظریات پر ہندوستان میں بھی اجماع ہو چکا تھا! اور یہ کہ ہمارے پاس اس زمانے کے کسی اور ہندوستانی ماہر فلکیات یا ریاضی دان کی اس موضوع پر کوئی علمی رائے موجود ہے ؟
سید صاحب، گو حکمت والی بات مکمل ہضم نہیں ہو پارہی اور شاید اس میں بھی زیادہ قصور میرے ناقص انداز فکر و سوچ کا یے، کہ معاملات کو اس پہلو پر کم ہی پرکھا۔ لیکن ایک بات وثوق سے کہوں گا کہ بہت عرصے بعد سوشل میڈیا پر کسی کو انتہائی مدلل گفتگو کرتے پایاہے۔ یقیناً آپ کو اپنا خیال اور فکر خوبصورت...
مجھے آپ کی بات سے رتی بھر بھی اختلاف نہیں ہے۔
ہوتا دراصل یہ ہے کہ کسی سو، دو سو، چار سو سال پہلے کے قابل احترام و عقیدت کی غلطی نکل آئی یا بحث میں دلائل کا رخ کسی اور طرف مڑ گیا اور اس کے عقیدت مند مان کے نہیں دے رہے یا تاویلیں دے رہے ہیں تو جوابی دلیل والے احباب کسی ایک بریکنگ پوائنٹ پر...
پائین، ریاست پاکستان کے ہر ففتھیے، یوتھیے، جیالے، پٹواری, مجاہد، سیکولر، جیالے، ملحد کو اس حقیقت کا پتا ہے اور اس پر ہمارا کوئی زور بھی نہیں چلتا اور ہمیں زور لگانا بھی نہیں۔ اس لیے یہاں سکرینی جنگ میں ساڑ شاڑ نکالتے رہتے ہیں۔
کتاب مجھ سے پڑھی تو جا رہی ہے پر سمجھ ککھ بھی نہیں آ رہی۔ البتہ اعلیٰ حضرت سے عقیدت ہونے کے باوجود میں ان کے دعوی کو فی الحال ایک طرف رکھتے ہوئے کچھ عرصے کے لیے زمین کو ساکن مان رہا ہوں۔