ڑنگا کی صدا نے مرے دلبر کو خبر کی
دل اس کا اچھل کر رہِ عشاق میں نکلا
یہ شعر کہیں سنا تھا۔ اب دریں حالیکہ ہمارا دل چاے کی چاہ میں اسی کی ہستی میں حلول کر گیا ہے، یہ شعر دلالت کرتا ہے کہ چاے چل سکتی ہے۔
ذو معنی ہو گیا ہے آپ کے مراسلے میں "شکر" کا لفظ۔ مگر عقل کا تقاضا ہے کہ جسے چاے پیش کی جا رہی ہو، اس کا شُکر بجا لانا تو یوں ہی ملزوم نہیں، تو یہ "بنا شَکّر" ہی ہو گا۔
ز من گرت نبوَد باور انتظار، بیا
بهانهجوی مباش و ستیزهکار بیا
[ اگر تجھے اس بات کا یقین نہیں کہ میں تیرے انتظار میں ہوں، تو آ جا (اور دیکھ لے). بہانے مت تلاش کر، اور لڑنے جھگڑنے کا طور اپنا کر آ جا۔ ]
به یک دو شیوه ستم دل نمیشود خرسند
به مرگِ من، که به سامانِ روزگار بیا
[ میرا دل تیرے ایک...
آن سو مرو، این سو بیا، ای گلبنِ خندان من!
ای عقلِ عقلِ عقلِ من! ای جانِ جانِ جانِ من!
[ اُس طرف نہ جا، اِس جانب آ جا، اے میرے گلشنِ خنداں!
اے میری عقل کی عقل کی عقل! اے میری جان کی جان کی جان! ]
زین سو بگردان یک نظر، بر کوی ما کن رهگذر
برجوش اندر نیشکر، ای چشمهٔ حیوانِ من!
[ ایک نظر اِس طرف...
اُس نے کہا کہ تو (پہلے ہی) صاحبِ بال و پر ہے، میں تجھے (اپنے) بال و پر عطا نہ کروں گا۔اُس کے بال و پر کی ہوس و خواہش میں مَیں بے پر اور بے پرواز (درماندہ و عاجز) ہو گیا۔