غالباً اقبال کی یہ نظم یہاں نقل کرنا پڑے گی۔
تسلیم و رِضا
ہر شاخ سے یہ نکتۂ پیچیدہ ہے پیدا
پَودوں کو بھی احساس ہے پہناے فضا کا
ظُلمت کدۂ خاک پہ شاکر نہیں رہتا
ہر لحظہ ہے دانے کو جُنوں نشوونَما کا
فطرت کے تقاضوں پہ نہ کر راہِ عمل بند
مقصود ہے کچھ اور ہی تسلیم و رِضا کا
جُرأت ہو نمو کی تو فضا تنگ...