غزل
دِل کی کہہ د ُوں مجال بھی تو نہیں
اس پہ حاصل کمال بھی تو نہیں
جس سے دِل اُس کا رام ہوجائے
ہم میں ایسا کمال بھی تو نہیں
خاطرِ ماہ و سال ہو کیونکر
کوئی پُرسانِ حال بھی تو نہیں
جس سے سجتے تھے خواب آنکھوں میں
اب وہ دِل کا کمال بھی تو نہیں
کیسے مایوسیاں نہ گھر کرلیں
دِل کا وہ اِستِعمال بھی...
غزل
فراقؔ گورکھپُوری
عِشق فُسردہ ہی رہا ،غم نے جَلا دِیا تو کیا
سوزِ جِگر بڑھا تو کیا، دِل سے دُھواں اُٹھا تو کیا
پھر بھی تو شبنمی ہے آنکھ، پھر بھی تو ہَونٹ خُشک ہیں
زخمِ جِگر ہنسا تو کیا ، غُنچۂ دِل کِھلا تو کیا
پھر بھی تو اہلِ غم تِرے، رازِ سُکوں نہ پا سکے!
تُو نے نظر کی لَورِیاں دے کے سُلا...
غزل
بُھولے افسانے وَفا کے یاد دِلواتے ہُوئے
تم تو، آئے اور دِل کی آگ بھڑکاتے ہُوئے
موجِ مَے بَل کھا گئی، گُل کو جمَائی آ گئی
زُلف کو دیکھا جو اُس عارض پہ لہراتے ہُوئے
بے مروّت یاد کر لے، اب تو مُدّت ہو گئی !
تیری باتوں سے دِلِ مُضطر کو بہلاتے ہُوئے
نیند سے اُٹھ کر کسی نے اِس طرح آنکھیں مَلِیں...
غزل
حیات و ذات پر فُرقت کے غم برباد بھی ہونگے
کبھی حاصل رہی قُربت سے ہم پِھر شاد بھی ہونگے
ذرا بھی اِحتِمال اِس کا نہ تھا پردیس آنے تک!
کہ دُوری سے تِری، ہم اِس قدر ناشاد بھی ہونگے
بظاہر جو، نظر آئیں نہ ہم سے آشنا بالکل
ضرُور اُن کو کئی قصّے پُرانے یاد بھی ہونگے
شُبہ تک تھا نہیں ترکِ...
غزل
دہن کو زخم، زباں کو لہوُ لہوُ کرنا
عزیزو! سہل نہیں اُس کی گُفتگوُ کرنا
کُھلے درِیچوں کو تکنا، تو ہاؤ ہُو کرنا
یہی تماشا سرِ شام کوُ بہ کوُ کرنا
جو کام مجھ سے نہیں ہو سکا،وہ تُو کرنا
جہاں میں اپنا سفر مِثلِ رنگ و بُو کرنا
جہاں میں عام ہیں نکتہ شناسیاں اُن کی
تم ایک لفظ میں تشریحِ آرزُو...
غزل
نظر سے پل بھر اُتر وہ جائے تو نیند آئے
شبِ قیامت نہ آزمائے تو نیند آئے
چّھٹیں جو سر سے دُکھوں کے سائے تو نیند آئے
خبر کہِیں سے جو اُن کی آئے تو نیند آئے
دماغ و دِل کو کبھی میسّر سکون ہو جب !
جُدائی اُس کی نہ کُچھ ستائے تو نیند آئے
خیال اُس کا، ہو کروَٹوں کا سبب اگرچہ
اُمید ملنے کی جب بھی...
غزل
بہار آئی ہے کُچھ بے دِلی کا چارہ کریں
چمن میں آؤ حریفو ! کہ اِستخارہ کریں
شرابِ ناب کے قُلزُم میں غُسل فرمائیں
کہ آبِ مُردۂ تسنِیم سے غرارہ کریں
جُمود گاہِ یخ و زمہرِیر ہی میں رہیں
کہ سیرِ دائرۂ شُعلہ و شرارہ کریں
حِصارِ صومِعہ کے گِرد ، سعی فرمائیں
کہ طوفِ کعبہ رِندِ شراب خوارہ...
غزل
بَدن میں اُتریں تھکن کے سائے تو نیند آئے
یہ دِل، کہانی کوئی سُنائے تو نیند آئے
بُجھی بُجھی رات کی ہتھیلی پہ مُسکرا کر!
چراغِ وعدہ، کوئی جلائے تو نیند آئے
ہَوا کی خواہش پہ کون آنکھیں اُجاڑتا ہے
دِیے کی لَو خود سے تھر تھرائے تو نیند آئے
تمام شب جاگتی خموشی نے اُس کو سوچا!
وہ زیرِ لب گیت...
مرزاا یاسؔ، یگانہؔ، چنگیزیؔ
بر غزلِ شہیدیؔ
آرہی ہے یہ صدا کان میں ویرانوں سے
کل کی ہے بات کہ آباد تھے دِیوانوں سے
لے چلی وحشتِ دِل کھینچ کے صحرا کی طرف
ٹھنڈی ٹھنڈی جو ہوا آئی بیابانوں سے
پاؤں پکڑے نہ کہِیں کوچۂ جاناں کی زمِیں
خاک اُڑاتا جو نکل آؤں بیابانوں سے
تنکے چُن جا کے کسی کوچے میں او...
غزل
شُعلہ ہی سہی آگ لگانے کے لیے آ
پِھر نُور کے منظر کو دِکھانے کے لیے آ
یہ کِس نے کہا ہے مِری تقدِیر بنا دے
آ اپنے ہی ہاتھوں سے مِٹانے کے لیے آ
اے دوست! مجھے گردِشِ حالات نے گھیرا
تُو زُلف کی کملی میں چھپانے کے لیے آ
دِیوار ہے دُنیا، اِسے راہوں سے ہٹا دے
ہر رسمِ محبّت کو مِٹانے کے لیے آ...
غزل
زخموں کے نئے پھول کِھلانے کے لئے آ
پھر موسمِ گُل یاد دلانے کے لئے آ
مستی لئے آنکھوں میں بکھیرے ہوئے زُلفیں
آ، پھر مجھے دِیوانہ بنانے کے لئے آ
اب لُطف اِسی میں ہے، مزا ہے تو اِسی میں!
آ اے مِرے محبُوب! ستانے کے لئے آ
آ، رکھ دَہَنِ زخم پہ، پِھر اُنگلیاں اپنی
دِل بانسری تیری ہے،...
حضرتِ دِل! یہ عِشق ہے، درد سے کسمسائے کیوں
موت ابھی سے آئے کیوں، جان ابھی سے جائے کیوں
عِشق کا رُتبہ ہے بڑا عِشق خُدا سے جا مِلا
آپ نے کیا سمجھ لِیا، آپ یہ مُسکرائے کیوں
میرا غلط گِلہ سہی، ظُلم و جَفا رَوا سہی
نازِ سِتم بجا سہی، آنکھ کوئی چُرائے کیوں
تجھ سے زیادہ نازنیں، اِس میں ہزاروں ہیں...
غزل
دولتِ دِیدار نے آنکھوں کوروشن کردِیا
مرتبہ عین الیقیں کا آج حاصِل ہو گیا
لے اُڑی خلوت سرا سے تُم کو بُوئے پَیرَہَن
آخر اِک دِن سب حجابِ ناز باطِل ہو گیا
پار اُترے، ڈُوبنے والے محیطِ عِشق کے
حلقۂ گرداب اِک آغوشِ ساحل ہوگیا
صُورت آبادِ جہاں خوابِ پریشاں تھا کوئی
دیکھتے ہی دیکھتےسب، نقشِ...