نتائج تلاش

  1. طارق شاہ

    اکرم نقاشؔ::::: ٹُوٹی ہُوئی شبیہ کی تسخیر کیا کریں

    غزل اکرم نقاشؔ ٹُوٹی ہُوئی شبیہ کی تسخیر کیا کریں بجھتے ہوئے خیال کو زنجیر کیا کریں اندھا سفر ہے زِیست کِسے چھوڑ دے کہاں اُلجھا ہُوا سا خواب ہے تعبیر کیا کریں سینے میں جذب کتنے سمندر ہُوئے، مگر آنکھوں پہ اِختیار کی تدبیر کیا کریں بس یہ ہُوا کہ راستہ چُپ چاپ کٹ گیا اِتنی سی واردات کی...
  2. طارق شاہ

    فاضل جمیلی: شوقین مزاجوں کے رنگین طبیعت کے

    غزل فاضلؔ جمیلی شوقین مزاجوں کے رنگین طبیعت کے وہ لوگ بُلُا لاؤ نمکین طبیعت کے دُکھ درد کے پیڑوں پر اب کے جو بہار آئی پھل پُھول بھی آئے ہیں غمگین طبیعت کے خیرات محبّت کی پھر بھی نہ ملی ہم کو ہم لاکھ نظر آئے مسکین طبیعت کے اب کے جو نشیبوں میں پرواز ہماری ہے ہم کون سے ایسے تھے شاہین طبیعت کے...
  3. طارق شاہ

    لیاقت علی عاصم ::::حوصلے دِیدۂ بیدار کے سَو جاتےہیں:Liaquat Ali Asim ::i

    غزل لیاقت علی عاصم حوصلے دیدۂ بیدار کے سو جاتے ہیں نیند کب آتی ہے، تھک ہار کے سو جاتے ہیں روز کا قصّہ ہے یہ معرکۂ یاس و اُمید جیت کر ہارتے ہیں، ہار کے سو جاتے ہیں سونے دیتے ہیں کہاں شہر کے حالات،مگر ہم بھی سفّاک ہیں، جی مار کے سو جاتے ہیں چاہتے ہیں رہیں...
  4. طارق شاہ

    تاسف یعقوب آسی کا سانحہ ارتحال

    انا للہ و انا الیہ راجعون اللہ تعالٰی مرحوم کو جوارِ رحمت میں جگہ دے اور تمام پس ماندگان بشمول اردو محفل کے رفقا کو اُن کے حق میں ہمیشہ دُعا کرتے رہنے کی عادت و سعادت نصیب کرے۔ آمین
  5. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::چلے بھی آؤ کہ فُرقت سے دِل دُہائی دے::::shafiq khalish

    بہت نوازش اظہار خیال پر جناب ❤️
  6. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::چلے بھی آؤ کہ فُرقت سے دِل دُہائی دے::::shafiq khalish

    غزل چلے بھی آؤ کہ فُرقت سے دِل دُہائی دے غمِ جہاں بھی، نہ اِس غم سے کُچھ رہائی دے کبھی خیال، یُوں لائے مِرے قریب تُجھے ! ہرایک لحظہ، ہراِک لب سے تُو سُنائی دے کبھی گُماں سے ہو قالب میں ڈھل کے اِتنے قریب تمھارے ہونٹوں کی لرزِش مجھے دِکھائی دے ہے خوش خیالیِ دل سے کبھی تُو پہلُو میں کُچھ اِس طرح...
  7. طارق شاہ

    شفیق خلش :::: دیدہ دلیری سب سے، کہ اُس کو بُھلا دِیا::: Shafiq Khalis

    غزل دِیدہ دلیری سب سے، کہ اُس کو بُھلادِیا اَوروں نے جب کہا کبھی، مجھ کو رُلا دِیا جو روز بڑھ رہا تھا بہر طَور پانے کا! جذبہ وہ دِل کا ہم نے بالآخر سُلادیا تردِید و خوش گمانی کو باقی رہا نہ کُچھ ہر بات کا جواب کُچھ ایسا تُلا دِیا تشہیر میں کسر کوئی قاصِد نے چھوڑی کب! خط میرے نام لکھ کے جب...
  8. طارق شاہ

    شفیق خلش :::کرب چہرے کا چھپاتے کیسے::::Shafiq-Khalish

    نوازش اظہارِ خیال پر شئیر کرنا باعثِ مسرّت ہے
  9. طارق شاہ

    شفیق خلش :::کرب چہرے کا چھپاتے کیسے::::Shafiq-Khalish

    غزل کرب چہرے کا چھپاتے کیسے پُر مُسرّت ہیں جتاتے کیسے ہونٹ بھینچے تھے غَم و رِقَّت نے مسکراہٹ سی سجاتے کیسے بعد مُدّت کی خبرگیری پر اشک آنکھوں کے بچاتے کیسے دوستی میں رہے برباد نہ کم دشمنی کرتے نبھاتے کیسے خوش ہیں، وابستہ ہے اِک یاد سے زیست وہ نہ مِلتے، تو بِتاتے کیسے ظاہر اُن پر ہُوئیں...
  10. طارق شاہ

    شفیق خلش ::: دل مبتلا ہے حسرتِ دِیدار ہی تو ہے::: Shafiq Khalish

    ❤️ نوازش اظہارِ خیال پر جناب !
  11. طارق شاہ

    شفیق خلش ::: دل مبتلا ہے حسرتِ دِیدار ہی تو ہے::: Shafiq Khalish

    دِل مُبتلائے حسرتِ دِیدار ہی تو ہے فُرصت وَبا کے دَم سے یہ بیکار ہی تو ہے کب دِل کو اِنحرافِ روابِط تھا یُوں قبُول ہر وقت ذکرِ مرگ سے بیزار ہی تو ہے بندہ وَبا سے، گھر رہا محفوظ ہے ضرور لیکن، تمھارے ہجر میں بیمار ہی تو ہے منزل کی دسترس میں کوئی سد نہیں، مگر ہر پیش و پس، بہ مُمکنہ رفتار ہی تو...
  12. طارق شاہ

    شفیق خلش ::: دل مبتلا ہے حسرتِ دِیدار ہی تو ہے::: Shafiq Khalish

    دِل مُبتلائے حسرتِ دِیدار ہی تو ہے فُرصت وَبا کے دَم سے یہ بیکار ہی تو ہے کب دِل کو اِنحرافِ روابِط تھا یُوں قبُول ہر وقت ذکرِ مرگ سے بیزار ہی تو ہے بندہ وَبا سے، گھر رہا محفوظ ہے ضرور لیکن، تمھارے ہجر میں بیمار ہی تو ہے منزل کی دسترس میں کوئی سد نہیں، مگر ہر پیش و پس، بہ مُمکنہ رفتار ہی تو...
  13. طارق شاہ

    غزل: چھتری لگا کے گھر سے نکلنے لگے ہیں ہم ٭ والی آسی

    ہوسکتا ہے پر کیا بات کی جاسکتی ہے بہت کچھ ہوسکتا ہے جرمِ کاتب بھی ہوسکتا ہے امثال سے ہی کہا جاسکتا ہے کہ شتر گربہ، یا تضاد نہیں ہے یا ایسا روا تھا اس وقت (ہوسکتا ہے بطنِ شاعر والے محاورہ کو تقویت دینے والا کلمہ بھی ہے)
  14. طارق شاہ

    غزل: چھتری لگا کے گھر سے نکلنے لگے ہیں ہم ٭ والی آسی

    ایسا نہیں کہ ایک یقینی امر کا بیان ہے اس لئے ہو یا اسی معنٰی میں ہوں (قیاسی کلمہ) نہیں آسکتا
  15. طارق شاہ

    غزل: چھتری لگا کے گھر سے نکلنے لگے ہیں ہم ٭ والی آسی

    ایسا نہیں کہ برف کی مانند ہوں مگر ایسا نہیں کہ برف کی مانند ہیں مگر لگتا ہے یوں کہ جیسے پگھلنے لگے ہیں ہم
  16. طارق شاہ

    شکیب جلالی غزل ۔ ساحل تمام اشکِ ندامت سے اٹ گیا ۔ شکیب جلالی

    چہرہ یُوں میرا خاکِ مسافت سے اٹ گیا قائم جو رنگ و نُور سا رہتا تھا چھٹ گیا
Top