نتائج تلاش

  1. عرفان سرور

    منیر نیازی منیر نیازی

    ایک منظر ` رات کلیاں سنگترے کے پیڑ سے ٹوٹ کر گریں صاف، چٹیل گوشئہ گلشن کی ویراں راہ پر دھوپ کے رنگ میں ایک نیا رنگ پیلا پھول اک زرد گڑھا ہے جس میں شہد کی مکھی ڈھونڈ رہی ہے چیز کوئی جو اس نے یہاں تھی رکھی شہر کی بوند کہ زھر ہے کوئی یا کوئی پھول کی پتی پیلا پھول ہے روشن جیسے دھوپ میں روشن بتی
  2. عرفان سرور

    منیر نیازی منیر نیازی

    کراچی کی سیر کے دوران ` نصف شب سے صبح دم کے راستے میں بحر ہے صبح سے پھر نصف شب کے راستے میں بحر ہے شام کے آغاز سے تشنگی سی دل میں تھی ایک کم آباد قریے کی ہوا میں سیر کی یہ میری خواہش سواد بحر میں پوری ہوئی
  3. عرفان سرور

    منیر نیازی منیر نیازی

    لاہور میں ایک صبح ` شبنم چمک رہی ہے سورج کی روشنی میں رنگت مہک رہی ہے پھولوں کی تازگی میں تتلی نے پنکھ کھولے اک لال پنکھڑی پر جیسے کتاب کو مخمل کی پالکی پر اتری کسی جہاں سے منظر کی یک رخی پر
  4. عرفان سرور

    منیر نیازی منیر نیازی

    ان لوگوں سے خوابوں میں ملنا ہی اچھا رہتا ہے ` تھوڑی دیر کو ساتھ رہے کسی دھندلے سے نقشے پر ہاتھ میں ہاتھ دیے گھومے کہیں دور دراز کے رستے پر بے پردہ استھانوں پر دو اڑتے ہوئے گیتوں کی طرح غصے میں کبھی لڑتے ہوئے کبھی لپٹے ہوئے پیڑوں کی طرح اپنی اپنی راہ چلے پھر آخر شب کے میداں میں اپنے اپنے گھر کو...
  5. عرفان سرور

    منیر نیازی منیر نیازی

    صبح صادق کا پھیلاؤ ` اذاں مسجدوں سے اٹھی جس گھڑی ہواؤں کے دل اور گہرے ہوئے کنارے فلک کے اور گلابی ہوئے گلابی سے پھر وہ سنہرے ہوئے
  6. عرفان سرور

    منیر نیازی منیر نیازی

    شہروں کے مکان ` ان مکانوں میں ہے کیا بے روح لوگوں کے سوا ثابت و سیّار ساعتیں صبح بہار میں اے جا کے ملوں گا میں کبھی جس سے بچھڑ گیا تھا میں عہد خزاں کی شام میں شام فراق تھی مجھے باب دیار یار سی سیر سواد دل ربا نافہ مشکبار سی خواہش ارض منتظر تازہ نئے نظام میں
  7. عرفان سرور

    منیر نیازی منیر نیازی

    گانے والے پنچھی کی ہجرت ` ہری شاخ کانپ رہی ہے تھوڑی دیر پہلے یہاں ایک عجیب رنگ کا پنچھی بیٹھا گا رہا تھا کسی نے اسے ڈرا دیا اور وہ اڑ گیا ہری شاخ اس کے اڑنے کے بوجھ سے کانپی تھی کچھ دیر اسی طرح کانپتی رہے گی
  8. عرفان سرور

    منیر نیازی منیر نیازی

    کہنے والی بات میں دیر کی وجہ ` یہی اصل حقیقت ہے کہ میری بے رخی چاہت ہوئی مثل قفس مجھ کو ’’ مجھے تم سے محبت ہے ‘‘ بس اتنی بات کہنے میں لگے بارہ برس مجھ کو
  9. عرفان سرور

    منیر نیازی منیر نیازی

    سو جاؤ، آرام کرو ` سو جاؤ، آرام کرو تم جو اتنے دُکھی رہے ہو سو جاؤ ،آرام کرو اب خوشیوں کو اپنے دل میں مہماں بن کر آنے دو دل کو جلانے والے ظالم اندیشوں کو جانے دو وہ جو تمہا رے من میں بسی تھی اس ناری نے اب تو تم سے ملنے کا اقرار کیا ہے
  10. عرفان سرور

    منیر نیازی منیر نیازی

    فصل بہاراں میں شہر کی فکر ` نیم، املی کے، سفیدے کے درختوں سے پرے سبز حرفوں کی طرح کی تتلیاں، اڑتی ہوئیں پھولوں، گھروں کے درمیاں چند خوش، رنگیں مسافر قافلوں اور راستوں اور منزلوں کے درمیاں اس کتاب رنگ و نگہت کے علاقوں سے پرے شہر کی خبروں سے کچھ افسردہ سا دل ہے میرا فکر ہست و بود کی دیوانگی میں...
  11. عرفان سرور

    منیر نیازی منیر نیازی

    شکر پڑیاں کی پہاڑی پر نظم ` کچھ دیار غیر کے کچھ اپنے قصبوں کے شجر کچھ شناسا اور کچھ انجانے شہروں کے شجر دوریوں پر سلسلے کہسار پراسرار کے اور اس دھندلے جہاں میں نیلے خوابوں کے شجر اس مقام سبز سے نیچے نشیب شہر میں ایک پاکیزہ سفیدی اور گلیوں کے شجر میں ہوں اور سحر سفر ہے اور رستوں کی ہوا سرفراز...
  12. عرفان سرور

    منیر نیازی منیر نیازی

    خوبصورت زندگی کو ہم نے کیسے گزارا ` آج کا دن کیسے گزرے گا کل گزرے گا کیسے کل جو پریشانی میں، بیتا وہ بھولے گا کیسے کتنے دن ہم اور جئیں گے کام ہے کتنے باقی کتنے دکھ ہم کاٹ چکے ہیں اور ہیں کتنے باقی خاص طرح کی سوچ تھی جس میں سیدھی بات گنوا دی چھوٹے چھوٹے وہموں ہی میں ساری عمر بتا دی
  13. عرفان سرور

    منیر نیازی منیر نیازی

    کتنے بے کل نین ہیں ` کتنے بے کل نین ہیں اس کے اک پل بھی انھیں چین نہیں رت بسنت کی تتلیاں جیسے خواب ابد کی کھڑکیاں جیسے سورج پر دو بدلیاں جیسے امر سہاگ کے ان نگروں میں کوئی برہہ کی رین نہیں
  14. عرفان سرور

    منیر نیازی منیر نیازی

    کچھ باتیں ان کہی رہنے دو ` کچھ باتیں ان کہی رہنے دو کچھ باتیں ان سنی رہنے دو سب باتیں دل کی کہہ دیں اگر پھر باقی رہ جائے گا سب باتیں ان کی سن لیں اگر پھر باقی کیا رہ جائے گا اک اوجھل بے کلی رہنے دو اک رنگیں ان بنی دنیا پر اک کھڑکی ان کھلی رہنے دو
  15. عرفان سرور

    منیر نیازی منیر نیازی

    گھر بنانا چاہتا ہوں ` گھر بنانا چاہتا ہوں میرا گھر کوئی نہیں دامن کہسار میں یا ساحل دریا کے پاس اونچی اونچی چوٹیوں پر سرحد صحرا کے پاس متفق آبادیوں میں وسعت تنہا کے پاس روز روشن کے کنارے یا شب یلدا کے پاس اس پریشانی میں میرا راہبر کوئی نہیں خواہشیں ہی خواہشیں ہیں اور ہنر کوئی نہیں
  16. عرفان سرور

    منیر نیازی منیر نیازی

    کُوکتی ہے بنسری ` کوکتی ہے بنسری بیراگ کی وصل کی کھڑکیوں ملن کے دن کی سیما سے پرے
  17. عرفان سرور

    منیر نیازی منیر نیازی

    بیمار گلاب ` لال گلاب کے پھول تجھے تو روگ لگا ہے وہ کیڑا جو شور مچاتے طوفانوں میں رات کو اڑتا پھرتا ہے اور آنکھ سے اوجھل رہتا ہے اس نے تیری خوشیوں کا رنگیلا بستر دیکھ لیا ہے اس کی بھید بھری چاہت نے تن من تیرا پھونک دیا ہے
  18. عرفان سرور

    منیر نیازی منیر نیازی

    منتشر ہے بہت ` منتشر ہے بہت حد افلاک تک حد افلاک سے عرصہ خاک تک نقش اس رنگ کا دل سے کیسے اڑے وسعت ہجر میں تنگی وصل میں اتنا بکھرا ہوا اتنا ٹوٹا ہوا خواب کیسے جڑے
  19. عرفان سرور

    منیر نیازی منیر نیازی

    امید کا گیت ` تیری دُور رس نگاہیں کوئی خواب دیکھتی ہے کھلے پانیوں کا جلوہ کہ سراب دیکھتی ہے کوئی پر سکون مسکن کوئی غمگسار محفل کوئی دل فریب منزل کوئی بامراد ساحل جو اتر رہی ہے دل پر وہ کتاب دیکھتی ہیں کسی اجنبی جہاں کی ہے تلاش ان کو شاید کسی ہم نفس کے آنے کی ہے آس ان کو شاید کوئی خواب زندگی کا...
  20. عرفان سرور

    منیر نیازی منیر نیازی

    رات اتنی جا چکی ہے اور سونا ہے ابھی اس نگر میں اک خاموشی کا خواب بونا ہے ابھی کیوں دیا دل اس بُتِ کم سن کو ایسے وقت میں دل سے شے جس کے لیے بس اک کھلونا ہے ابھی ایسی یادوں میں گھرے ہیں جن سے کچھ حاصل نہیں اور کتنا وقت ان یادوں میں کھونا ہے ابھی جو ہوا ہونا ہی تھا سو ہو گیا ہے دوستو داغ اس عہد ستم...
Top