احباب گرامی ، سلام عرض ہے!
اپنی ایک پرانی، لیکن آپ كے لیے نئی، غزل پیش کر رہا ہوں . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی گراں قدر رائے سے نوازیے .
ڈھونڈے ڈھونڈے نہ جہاں سایہ ء دیوار ملے
کیا ہو، اُس شہر میں گر دھوپ کا آزار ملے
موت کا خوف نہیں ہے مجھے یا رب، لیکن
التجا اتنی ہے تجھ سے کہ بس اک بار ملے...
تابش صاحب، سلام عرض ہے!
اِس دلچسپ کاوش پر میری ناچیز داد حاضر ہے! بھائی، آپ کی غزل تو مجھے اپنے دِل کی آواز محسوس ہوئی . :) حالانکہ یہ ایک فی لبدیہ تخلیق ہے، تاہم عرض ہے کہ ’طبیعیٌات‘ کا لفظ بحر میں نہیں کھپ رہا . یہاں کچھ اور سوچئے .
نیازمند ،
عرفان عؔابد
راحل صاحب، سلام عرض ہے!
جذباتی اور عمدہ نظم ہے . داد حاضر ہے! کچھ مصرعے آپ نے مفاعیلن سے نہیں شروع کیے ورنہ نظم اور نکھر سکتی تھی .
نیازمند،
عرفان عؔابد
آداب ، دوستو!
نئے سال کی آمد آمد ہے . آپ سب کو نئے سال کی دلی مبارکباد! اِس موقع پر ایک مسلسل غزل پیش خدمت ہے . آپ کی رائے کا انتظار رہے گا .
غزل
آ، نئے سال کو یوں عمر میں لایا جائے
جشن اب كے کوئی رسمی نہ منایا جائے
اپنے دروازے پہ پھولوں كے نہ ہوں ہار اِس بار
غیر کی راہ كے کانٹوں کو ہٹایا...
راحل صاحب ، آداب عرض ہے!
لگتا ہے آپ فی الحال ہمیں پرانی غزلوں پرٹرخانے كے موڈ میں ہیں . چلیے، یوں ہی سہی .:) آپ کی غزل خوب ہے . داد حاضر ہے .
نیازمند،
عرفان عؔابد
راسخ صاحب ، آداب عرض ہے!
مجھے خود اِس بزم میں آئے ہوئے کچھ عرصہ ہی ہوا ہے، لیکن چونکہ آپ میرے بعد آئے ہیں، میں آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں .
آپ کی غزل پسند آئی . داد قبول فرمائیے .
نیازمند،
عرفان عؔابد