ہجر کرتے یا کوئی وصل گزارا کرتے
ہم بہرحال بسَر خواب تمھارا کرتے
ایک ایسی بھی گھڑی عشق میں آئی تھی کہ ہم
خاک کو ہاتھ لگاتے تو ستارا کرتے
اب تو مل جاؤ ہمیں تم کہ تمھاری خاطر
اتنی دور آ گئے دنیا سے کنارا کرتے
محوِ آرائشِ رُخ ہے وہ قیامت سرِ بام
آنکھ اگر آئینہ ہوتی تو...
اِک سِتارہ ادا نے یہ کیا کر دیا، میری مٹّی سے مجھ کو جُدا کر دیا
اِن دنوں پاؤں میرے زمیں پر نہیں، اب مِری منزلیں آسمانوں میں ہیں
واہ واہ کیا کہنے ۔۔بہت خوب ہے ۔
مرگ انبوہ بھی جشن ساماں نہیں
اب کوئی قتل گاہوں میں جائے تو کیا
کب سے توقیر لالہ قبائی گئی
کوئی اپنے لہو میں نہائے تو کیا
واہ واہ ۔۔ فراز کی بے انتہا خوبصورت نظم ہے بیٹا۔
بہت عرصہ قبل پڑھی تھی آج پھر سے پڑھ کر خوب لطف آیا۔
جیتی رہیں۔:)
شہرِ خوباں میں نہیں آتش مروت کا رواج
تشنہ لب مر جاؤں تو ممکن نہ ہو پانی مجھے
واہ واہ مکمل غزل ہی خوبصورت ہے مگر مقطع کا تو جواب نہیں ۔
جیتے رہیں بیٹا آباد رہیں :)