مطلع درست ہے، لیکن کچھ اشعار میں ردیف بے معنی لگتی ہے
بیان میں اثر نہیں، یہ مراد "نہیں بچا" سے ادا نہیں ہوتی
کہنے کو بچنا تو درست ہے، زبان میں بچنا غلط
درست
ردیف کا مطلب
پہلا مصرع بحر سے خارج، بجلی گری تو چار سو تنکے بکھر گئے، درست ہو سکتا ہے
آشیان برائے آشیانہ فارسی میں تو مستعمل ہے، اردو...
محفل کی ہر دلعزیز رکن جاسمن جن کا اصل نام میں نے عنوان میں دے دیا ہے (جاسمن سے معذرت کے بغیر) چپ چاپ بیس ہزاری منصب اختیار کر چکی ہیں اور کسی کو خبر ہی نہیں ہوئی!
اب آئیے سیما علی مریم افتخار گُلِ یاسمیں اچھے سے غبارے کیک اور آتش بازی لے کر!
نہیں بیٹا عظیم تم اصلاح کرتے ہو تو خوشی ہوتی ہے کہ بالکل میرے اصلاحی مدرسے کی تقلید میں ہوتی ہے، اور جس پر میرا دھیان نہیں جاتا، یا سوچا ہو گا کہ یوں بھی چل سکتا ہے۔تمہاری اپنی لا تعداد غزلوں کی اصلاح کرنے کا ثمر ہے یہ شاید!
مجھے تو یہ غزل قطعی یاد نہیں۔ویسے بھائی مرحوم وارث اور ابن رضا نے بتا ہی دیا تھا کہ اوزان اور قوافی غلط ہیں۔ شاید اسی لئے میں نے یہاں کلک رنجہ نہیں فرمایا تھا! اب بھی وقت ہے، جب تک محفل کی سانسیں چل رہی ہیں، اس کی خود ہی مناسب ترمیم کر لو جاسمن
لیکن مطلع کے دوسرے مصرعے کو میں نے اس وقت نا قابل اصلاح قرار دیا تھا، کہ مجھے خود کوئی مناسب گرہ نہیں سوجھ رہی تھی۔ مگر لگتا ہے کہ تم نے اسی بے بحر مصرع کو قبول کر لیا!
چیٹ جی پی ٹی کو شاید "کچھ بھی نہیں بچا" کا فقرہ کچھ گڑبڑلگا مگر اراکین نہیں پہچان سکا۔ یہ مفعول فاعلن ہو گیا ہے، مفاعیل فعولن/فاعلن نہیں.۔ صریر کے مشورے سے بحر درست ہو سکتی ہے لیکن بات بنتی نہیں
ویسے مریم اور گُل کے ساتھ پرانے اراکین میں بہت سے نام شامل کیے جا سکتے ہیں جنہوں نے محفل میں رونق لگائی تھی بطور خاص گپ شپ والے سلسلوں میں
@تشنہ( شاذیہ)، @خوشی( فرح دیبا) ف۔قدوسی عائشہ عزیز ناعمہ عزیز اب تو ان خواتین کے نام بھی ٹیگے نہیں جا سکتے!