نتائج تلاش

  1. محمد اطھر طاھر

    جس کے ہاتھ میں پتھر دیکھا

    چاہت دیس سے آنے والی ہر اک یاد پرانی نکلی جس کو دیکھا روتے دیکھا سب کی وہی کہانی نکلی وہ بھی ہنستے ہنستے رویا میں بھی روتے روتے کھوی یوں اس کے بھی میرے بھی دردوں کی روانی نکلی ہم تو دریدہ دامن کو لیے دشت کو جب چل ہی دیے اک سہانی آواز نے روکا آواز بھی جانی پہچانی نکلی پلٹ کے دیکھا تو کیا دیکھا...
  2. محمد اطھر طاھر

    تیرے بن

    نہ تو صبح ہوتی ہے نہ ہی شام تیرے بن میسر تک نہیں آتا ہمیں آرام تیرے بن جتنے تانے بانے ہیں سب اُلجھے ہی جاتے ہیں ڈھنگ سے ہو نہیں پاتا کوئی بھی کام تیرے بن تیرے دیدار کی خاطر میں خود کو بیچ ڈالوں پر لگاتا تک نہیں کوئی ہمارے دام تیرے بن شہر بھر میں معزز تھے اب ہیں تہمتیں سر پر ہمیں تو کر رہے ہیں...
  3. محمد اطھر طاھر

    تیرے بن

    نہ تو صبح ہوتی ہے نہ ہی شام تیرے بن میسر تک نہیں آتا ہمیں آرام تیرے بن جتنے تانے بانے ہیں سب اُلجھے ہی جاتے ہیں ڈھنگ سے ہو نہیں پاتا کوئی بھی کام تیرے بن تیرے دیدار کی خاطر میں خود کو بیچ ڈالوں پر لگاتا تک نہیں کوئی ہمارے دام تیرے بن شہر بھر میں معزز تھے اب ہیں تہمتیں سر پر ہمیں تو کر رہے ہیں...
  4. محمد اطھر طاھر

    تم کیسی محبت کرتی ہو

    پیار بہت تم کرتی ہو دنیا سے بھی ڈرتی ہو یہ کیسی محبت کرتی ہو؟ تم کیسی محبت کرتی ہو؟ بارش کو ترستی ہو لیکن پانی سے بھی ڈرتی ہو کبھی تم ایسی راہوں کا انتخاب کرتی ہو کہ جس میں کسی کانٹے کسی پتھر کی پرچھائی تک نہ ہو دکھ درد سے کسی آہ سے شناسائی تک نہ ہو کہ جس راہ میں تپتی ہوا بھی آئی تک نہ ہو محبت...
  5. محمد اطھر طاھر

    لیکن اب نہیں جاناں

    زخم سینا مشکل تھا آنسو پینا مشکل تھا تم بن جینا مشکل تھا لیکن اب نہیں جاناں ہمیں رنجور رہنے کی زخموں سے چور رہنے کی تم سے دور رہنے کی عادت ہو گئی ہم کو قطرہ قطرہ بہنے کا ہمیں دکھ درد سہنے کا تم بن زندہ رہنے کا سلیقہ آگیا ہم کو تیری دید کی جو آس تھی میر آنکھ میں جو پیاس تھی وہ تو کب کی بجھ چکی وہ...
  6. محمد اطھر طاھر

    جو جان سے پیارا تھا وہی جان کو آیا ہے

    اک شخص کی آنکھوں نے یوں ہم کو رلایا ہے خونِ جِگر ہم نے اشکوں میں بہایا ہے ہم پیار بھی کر بیٹھے اظہار بھی کر بیٹھے اپنی ہی اناؤں کو ہاتھوں سے گنوایا ہے مجھے چاند جو کہتا تھا مجھے جان جو کہتا تھا جو جان سے پیارا تھا وہی جان کو آیا ہے از قلم محمد اطہر طاہر ہارون آباد
  7. محمد اطھر طاھر

    میری ہچکیاں میری سسکیاں

    میری ہچکیاں میری سسکیاں جو تجھے سنائی نہ دے سکیں تیرے قہقہوں کی وہ گونج تھی وہ جن میں دب کے رہ گئیں میرے خلوص میرے پیار کو تو نے ہنسی ہنسی میں اُڑا دیا تیری دید کے انتظار میں مری آنکھیں کب کی بہہ گئیں از قلم محمد اطہر طاہر ہارون آباد
  8. محمد اطھر طاھر

    اے امیر شہر

    اے امیر شہر تیری آنکھوں میں یہ جو دولت کی چمک ہے یہ یوں ہی نہیں چلی آئی ہے بھوک سے کتنے ہی چراغ بجھے ہیں تیرے مقہوروں کے کتنے ہی مزدوروں کے بدن ایندھن بنے ہیں تب تیری جہنم نے ضیاء پائی ہے تب تیری آنکھوں میں چمک آئی ہے چہرے پر یہ جورونق ہے پیرہن پر خوشبو جو نرالی ہے مفلس کی لٹی سانسیں ہیں مزدور...
  9. محمد اطھر طاھر

    عنوان کی تجویز دیجئے

    محبتوں کے حسین گلشن کو، جانے کس کی نظر لگی تھی، عداوتوں کی بغاوتوں کی، آگ جیسے بھڑک چکی تھی، وفا نظروں سے گر چکی تھی، خون آنکھوں میں اتر چکا تھا، تو بدگمانی میں گھر چکا تھا، واہموں میں اُتر چکا تھا، الہام جیسے کہ ہو رہے تھے، کہ قیامت ہے آن پہنچی، بہاریں تڑپ رہی تھیں، ہوائیں چیخ رہی تھیں، خزائیں...
  10. محمد اطھر طاھر

    اعترافِ جرمِ مردانگی

    ہمیں مردانگی نے یہ عجب سوغات بخشی ہے گلوں کو روندتے جانا دلوں کو توڑتے جانا چہکتی تتلیوں کو پھولوں کے خواب دکھا کر اُنہیں دبوچ لینا اور پھر اُن کو نوچتے جانا اُن پہ عشق جتا کر دلوں میں پیار جگا کر پروں کو کاٹ لینا اور اُنہیں چھوڑتے جانا جفاؤں سے وفاؤں تک سارے باب پڑھا کر نیا رستہ دکھا کر رستہ...
  11. محمد اطھر طاھر

    اے میری چار دن کی رفاقت

    یہ کیا سمجھ رکھا ہے خود کو؟ یہ کیسے تلخ لہجے میں تم مجھ سے بات کرتی ہو؟ کبھی بے مقصد باتوں پر یوں اُلجھتی رہتی ہو کبھی بے معنی لفظوں سے یوں بھڑکتی رہتی ہو، کہ جیسے ہر اک جذبے کو جلا کے راکھ کر دو گی، کبھی ہمراہ چلنے پر شرطیں باندھ دیتی ہو، کبھی ملنے کا جو کہہ دیں تو افسانے سناتی ہو بہانے سو...
  12. محمد اطھر طاھر

    کسی کو الوداع کہنا بہت تکلیف دیتا ہے

    کسی کو الوداع کہنا بہت تکلیف دیتا ہے امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں یقیں پہ بے یقینی کا کہر کچھ ایسا چڑھتا ہے دکھائی کچھ نہیں دیتا، سجھائی کچھ نہیں دیتا دعا کے لفظ ہونٹوں پر مسلسل کپکپاتے ہیں کسی خواہش کے اندیشے زہن میں دوڑ جاتے ہیں گماں کچھ ایسے ہوتا ہے کہ جیسے مل نہ پائیں گے یہ گہرے زخم فرقت کے کسی سے سل...
  13. محمد اطھر طاھر

    محبت ماورا ہے

    محبت ماورا ہے مذہب کی قیود سے شرح کی حدود سے ذات اعتقاد سے نام سے نہاد سے امن و اتحاد سے فساد سے تضاد سے گمنامی و تشہیر سے غریب سے امیر سے شاہ اور فقیر سے جاہ سے جاگیر سے انا اور ضمیر سے خواب سے تعبیر سے تحریر اور تعزیر سے گناہ سے تقصیر سے سنگ سے زنجیر سے دشمنوں کی چال سے عروج سے زوال سے فہم و...
  14. محمد اطھر طاھر

    ہمیں رونا بھی آتا ہے دکھ دھونا بھی آتا ہے

    ہمیں رونا بھی آتا ہے دکھ دھونا بھی آتا ہے اگر رونے پہ ہم آئیں تو دریا ہی بہادیں ہم بنیادیں زمانے بھر کی اک پل میں گرادیں ہم تیری فرعونیت کو بھی قدموں میں جھکادیں ہم اپنے ایک آنسو سے تیری دنیا بہادیں ہم ہمیں رونا بھی آتا ہے دکھ دھونا بھی آتا ہے میں رونے سے ڈرتا ہوں کہ میرے ایک آنسو سے تیری بستی...
  15. محمد اطھر طاھر

    میں تو مرد ہوں جاناں، مجھے رونا نہیں آتا

    عورت ذات ہو، تم تو چلا بھی سکتی ہو آنسوؤں سے پتھروں کو پگھلا بھی سکتی ہو تم تو رو بھی سکتی ہو، دکھوں کو دھو بھی سکتی ہو میں تو مرد ہوں جاناں، مجھے رونا نہیں آتا دکھ دھونا نہیں آتا جب کوئی مرد روتا ہے تو زمانہ ہنستا ہے ارے یہ مرد کیسا ہے؟ مرد ہو کے روتا ہے؟ یہ کیسے بلبلاتا ہے؟ اسے رونا بھی نہیں...
  16. محمد اطھر طاھر

    لگتے ہو کسی قہر میں لُٹے ہو جیسے سحر میں

    آئے ہو کیسی بحر میں؟ لپٹے دھوئیں کی لہر میں سُلگ رہے ہو زہر میں لگتے ہو کسی قہر میں لُٹے ہو جیسے سحر میں وحشت ہے تیری ذات میں دہشت ہے تیری بات میں ہیبت ہے تیری رات میں سانسیں تیری اٹک رہی ہیں اجل ہے تیری گھات میں یہ زخم ہیں ماہ و سال کے یا نشان ہیں رنج و ملال کے کیوں بیٹھے ہو ہار کے؟ زخموں پہ...
  17. محمد اطھر طاھر

    ہم تو مرد ہیں جاناں بڑے بے درد ہیں جاناں

    ہم تو مرد ہیں جاناں بڑے بے درد ہیں جاناں سپنے بھول جاتے ہیں وعدے توڑ جاتے ہیں جو ہم سے پیار کر بیٹھے اُسی کو چھوڑ جاتے ہیں مردانگی کے پتھروں سے کچل دیتے ہیں پھولوں کو کہاں ہم یاد رکھتے ہیں محبت کے اصولوں کو ہمیں سب لوگ کہتے ہیں مرد کو درد نہیں ہوتا جس کو درد ہوتا ہے شاید وہ مرد نہیں ہوتا سو ہم...
  18. محمد اطھر طاھر

    تو بنا کے پھر سے بگاڑ دے ، مجھے چاک سے نہ اُتارنا

    تو بنا کے پھر سے بگاڑ دے ، مجھے چاک سے نہ اُتارنا رہوں کو زہ گر ترے سامنے، مجھے چاک سے نہ اُتارنا تری ”چوبِ چاک “ کی گردشیں مرے آب وگِل میں اُتر گئیں مرے پاﺅں ڈوری سے کاٹ کے مجھے چاک سے نہ اُتارنا تری اُنگلیاں مرے جسم میں یونہی لمس بن کے گڑی رہیں کفِ کوزہ گر مری مان لے مجھے چاک سے نہ اُتارنا...
  19. محمد اطھر طاھر

    میرے کوزہ گر

    تو گزر گیا کسی موج میں، جسے توڑ کر میرے کوزہ گر میرے خال و خد کے نقوش تھے، اسی چاک پر میرے کوزہ گر ترے بعد کوزہ فروش نے، مجھے تاقچے میں سجا دیا جہاں ٹوٹ جانے کا خوف تھا، مجھے رات بھر میرے کوزہ گر تیری کار گاہ کی خامشی، مجھے نا تمام نہ چھوڑ دے تو دوام ھوتے سکوت میں، کوئی بات کر میرے کوزہ گر...
  20. محمد اطھر طاھر

    جنازہ نکلا ہے تہذیب کا

    جنازہ نکلا ہے تہذیب کا مردہ ضمیری کی حد ہوگئی ہے فرنگی رسموں کو فروغ دے کر یہ بیج کیسے بو رہے ہیں۔۔؟ خواب غفلت میں سو رہے ہیں فراموش کرکے افکار و عقائد کیوں جہنم کے ہو رہے ہیں۔۔؟ فرنگیوں کے نمائندوں نے صنفِ نازک کو ورغلایا اعتدالی کا سبق دے کر مرد و زن کا فرق مٹایا آزادیءِ نسواں کی راہ دکھائی...
Top