نتائج تلاش

  1. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    265 کیا جو عرض کہ دل سا شکار لایا ہوں کہا کہ ایسے تو میں مفت مار لایا ہوں کہے تو نخلِ صنوبر ہوں اس چمن میں میں کہ سر سے پاؤں تلک دل ہی بار لایا ہوں نہ تنگ کر اسے اے فکرِ روزگار کہ میں دل اُس سے دم کے لیے مستعار لایا ہوں پھر اختیار ہے آگے ترا یہ ہے مجبور کہ دل کو تجھ تئیں بے اختیار...
  2. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    264 سب خوبیاں ہیں شیخ مشیخت پناہ میں پر ایک حیلہ سازی ہے اُس دستِ گاہ میں مانند شمع ہم نے حضور اپنے یار کے کارِ وفا تمام کیا ایک آہ میں میں صید جو ہوا تو ندامت اُسے ہوئی اک قطرہ خون بھی نہ گرا صید گاہ میں پہنچے نہیں کہیں کہ نہیں واں سے اُٹھ چلے القصہ ایک عمر سے ہم ہیں گے راہ میں...
  3. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    263 میں پھاڑ گریباں کو، درویش ہوا آخر وے ہاتھ سے دامن کو اب تک بھی جھٹکتے ہیں تو طرہء جاناں سے چاہے ہے ابھی مقصد برسوں سے پڑے ہم تواے میر! لٹکتے ہیں
  4. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    262 اب کچھ ہمارے حال پہ تم کو نظر نہیں یعنی تمہاری ہم سے وے آنکھیں نہیں رہیں اُس بزم کے چراغ بجھے تھے جو یار میر اُن کے فروغِ باغ ہیں گُل ہو کہیں کہیں
  5. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    261 سن گوشِ دل سے اب تو سمجھ بے خبر کہیں مذکور کرچکا ہے مرا حال ہر کہیں اب فائدہ سراغ سے بلبل کے، باغباں! اطرافِ باغ ہوں گے پڑے مُشتِ پر کہیں عاشق ترے ہوئے تو ستم کچھ نہ ہوگیا مرنا پڑا ہے ہم کو، خدا سے تو ڈر کہیں (ق) کچھ کچھ کہوں گا روز یہ کہتا تھا دل میں مَیں آشفتہ طبع میر کو...
  6. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    260 تلوار غرقِ خوں ہے، آنکھیں گلابیاں ہیں دیکھیں تو تیری کب تک یہ بد شرابیاں ہیں جب لے نقاب منھ پر تب دید کر کہ کیا کیا درپردہ شوخیاں ہیں، پھر بے حجابیاں ہیں چاہے ہے آج ہوں میں ہفت آسماں کے اوپر دل کے مزاج میں بھی کتنی شتابیان ہیں جی بکھرے، دل ڈہے ہے، سر بھی گرا پڑے ہے خانہ خراب...
  7. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    259 ہم آپ ہی کو اپنا مقصود جانتے ہیں اپنے سوائے کس کو موجود جانتے ہیں عجز و نیاز اپنا اپنی طرف ہے سارا اس مشتِ خاک کو ہم مسجود جانتے ہیں صورت پذیر ہم بِن ہرگز نہیں وے معنے اہلِ نظر ہمیں کو معبود جانتے ہیں عشق اُن کی علق کو ہے جو ماسوا ہمارے ناچیز جانتے ہیں، نابود جانتے ہیں اپنی...
  8. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    259 جو حیدری نہیں، اُسے ایمان ہی نہیں ہو گو شریفِ مکہ، مسلمان ہی نہیں خال و خط ایسے فتنے، نگاہیں یہ آفتیں کچھ اک بلا وہ زلفِ پریشان ہی نہیں دیکھی ہو جس نے صورتِ دل کش وہ ایک آن پھر صبر اُس سے ہوسکے، امکان ہی نہیں یکساں ہے تیرے آگے جو دل اور آرسی کیا خوب و زشت کی تجھے پہچان ہی...
  9. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    258 دعوے کو یار آگے معیوب کرچکے ہیں اس ریختے کو ورنہ ہم خوب کرچکے ہیں مرنے سے تم ہمارے خاطر نچنت رکھیو اس کام کا بھی ہم کچھ اسلوب کرچکے ہیں حسنِ کلام کھینچے کیوں کر نہ دامنِ دل اس کام کو ہم آخر محبوب کرچکے ہیں ہنگامہء قیامت تازہ نہیں جو ہوگا ہم اس طرح کے کتنے آشوب کرچکے ہیں رنگِ...
  10. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    257 کوئی نہیں جہاں میں جو اندوہ گیں نہیں اس غم کدے میں آہ دلِ خوش کہیں نہیں ماتھا کیا ہے صرفِ سجودِ درِبُتاں مانند ماہِ نو کے مری اب جبیں نہیں فکرِ بلند سے میں کیا آسماں اسے ہر اک سے میر خوب ہو، یہ وہ زمیں نہیں
  11. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    256 تُو گلی میں اس کی جا، آ، ولے اے صبا نہ چنداں کہ گڑے ہوئے پھر اُکھڑیں دلِ چاک درد منداں ترے تیرِ ناز کے جو یہ ہدف ہوئے ہیں ظالم مگر آہنی توے ہیں جگرِ نیازمنداں میں صفا کیا دل اتنا کہ دکھائی دیوے منھ بھی ولے مفت اس آئنے کو نہیں لیتے خود پسنداں کُھلیں آنکھیں میں جو دیکھا سو غم اور...
  12. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    255 جن کے لیے اپنے تو یوں جان نکلتے ہیں اس راہ میں وے جیسے اَن جان نکلتے ہیں کیا تیر ستم اس کے سینے میں بھی ٹوٹے تھے جس زخم کو چیروں ہوں، پیکان نکلتے ہیں مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں کس کا ہے قماش ایسا گودڑ بھرے ہیں سارے دیکھونا جو لوگوں کے...
  13. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    254 زباں رکھ غنچہ ساں اپنے دہن میں بندھی مٹھی چلا جا اس چمن میں نہ کھول اے یار! میرا گور میں منھ کہ حسرت ہے مری جاگہ کفن میں رکھا کر ہاتھ دل پر، آہ کرتے نہیں رہتا چراغ ایسی پون میں نہ تجھ بن ہوش میں ہم آئے ساقی مسافر ہی رہے اکثروطن میں خردمندی ہوئی زنجیر، ورنہ گزرتی خوب تھی...
  14. وہاب اعجاز خان

    دیوان غالب کی شرح

    غزل ٤ دل مرا سوز نہاں سے بے محابا جل گیا آتشِ خاموش کی مانند گویا جل گیا لغات؛۔ بے محابا۔ بے تکلف، بے خوف، بے دھڑک آتشِ خاموش؛ دبی ہوئی آگ جو بظاہر بجھی ہوئی معلوم ہو لیکن اندر اندر جل رہی ہو۔ شرح؛۔ میرا دل اُس سوز سے جل گیا،جو اندر ہی اندر اپنا کام کررہا ہے۔سمجھنا چاہیے کہ وہ...
  15. وہاب اعجاز خان

    پشتو صوتی کلیدی تختہ

    جواب فرضی یار تمہارا شکوہ بجا ہے۔ لیکن میں تم سے ایک ذاتی خط میں بھی کہہ چکا ہوں۔ کہ ہم پاکستانی پشتونوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم لوگ پشتو بول تو سکتے ہیں لیکن لکھ نہیں سکتے پڑھ نہیں سکتے۔ سکول میں ہم لوگوں نے پشتو کی شکل تک نہیں دیکھی۔مگر اب میری کوشش ہے کہ میں پشتو لکھنا پڑھناسیکھ جاؤں۔ لیکن...
  16. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    نکلے ہے جنسِ حسن کسی کاروان میں یہ وہ نہیں متاع کہ ہو ہر دکان میں جاتا ہے اک ہجوم غم عشق جی کے ساتھ ہنگامہ لےچلے ہیں ہم اُس بھی جہان میں یارب کوئی تو واسطہ سرگشتگی کا ہے یک عمر بھر رہا ہے تمام آسمان میں ہم اُس سے آہ سوزِ دل اپنا نہ کہہ سکے تھے آتشِ دروں سے پھپھولے زبان میں (ق)...
  17. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    درد و اندوہ میں ٹھہرا جو رہا، میں ہی ہوں رنگ رُو جس کے کبھی منھ نہ چڑھا، میں ہی‌ ہوں اپنے کوُچے میں فغاں جس کی سنو ہو ہر رات دو جگر سوختہ و سینہ جلا میں ہی ہوں خار کو جن نے لڑی موتی کی کر دکھلایا اس بیابان میں وہ آبلہ پا میں ہی ہوں میں یہ کہتا تھا کہ دل جن نے لیا کون ہے وہ یک بہ یک...
  18. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    251 گر کچھ ہو دردِ آئنہ یوں چرخِ زشت میں ان صورتوں کو صرف کرے خاک وخشت میں رکھتا ہے سوز عشق سے دوزخ میں میں روز و شب لے جائے گا یہ سوختہ دل کیا بہشت میں آسودہ کیوں کہ ہوں میں کہ مانندِ گرد باد آوارگی تمام ہے میری سرشت میں کب تک خرابِ سعیِ طواف حرم رہوں دل کو اُٹھا کے بیٹھ رہوں گا...
  19. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    250 مشہور ہیں دلوں کی مرے بےقراریاں جاتی ہیں لامکاں کو دلِ شب کی زاریاں چہرے پہ جیسے زخم ہےناخن کا ہر خراش اب دیدنی ہوئی ہیں مری دست کاریاں سو بار ہم نے گُل کے گئے پر چمن کے بیچ بھر دی ہیں آبِ‌ چشم سے راتوں کو کیاریاں تُربت سے عاشقوں کی نہ اُٹھا، کبھو غبار جی سے گئے، ولے نہ گئیں...
  20. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    249 راضی ہوں،گو کہ بعد از صد سال و ماہ دیکھوں اکثر نہیں تو تجھ کو میں گاہ گاہ دیکھوں جی انتظار کش ہے، آنکھوں میں رہ گزر پر آجا نظر کہ کب تک میں تیری راہ دیکھوں آنکھیں جو کھُل رہی ہیں مرنے کے بعد میری حسرت یہ تھی کہ اُس کو میں اک نگاہ دیکھوں یہ دل وہ جا ہے جس میں دیکھا تھا تجھ کو...
Top