جب خیالوں میں خود کو کھولیں گے
ہم کھلی آنکھوں سے بھی سو لیں گے
آؤ کچھ دیر سو ہی لیں ناصر
تازہ دم ہو کے پھر سے رو لیں گے
منہ چھپاتے پھرو گے محفل میں
راز ہمایسے ایسے کھولیں گے
داغِ حسرت جو دل میں باقی ہیں
آنسوؤں سے انہیں بھی دھولیں گے
ہم کو رسوا کیا گیا ہے یہاں
ہم کسی سے بھی اب نہ بولیں...