نتائج تلاش

  1. Umair Maqsood

    احمد ندیم قاسمی قطعات

    ممکن ہے فضاؤں سے خلاؤں کے جہاں تک جو کچھ بھی ہو آدم کا نشانِ کفِ پا ہو ممکن ہے کہ جنت کی بلندی سے اتر کر انسان کی عظمت میں اضافہ ہی ہوا ہو
  2. Umair Maqsood

    احمد ندیم قاسمی قطعات

    میں نے اس دشت کی وسعت میں شبستاں پائے اس کے ٹیلوں پہ مجھے قصر نظر آئے ہیں ان ببولوں میں کسی ساز کے پردے لرزے ان کھجوروں پہ میرے راز ابھر آئے ہیں
  3. Umair Maqsood

    احمد ندیم قاسمی قطعات

    وہ تار کے اک کھمبے پہ بیٹھی ہے ابابیل اڑنے کے لئے دیر سے پر تول رہی ہے جس طرح میرے عشق کی ٹوٹی ہوئی کشتی امید کے ساحل پہ کھڑی ڈول رہی ہے
  4. Umair Maqsood

    احمد ندیم قاسمی قطعات

    یہ فضا، یہ گھاٹیاں، یہ بدلیاں یہ بوندیاں کاش اس بھیگے ہوئے پربت سے لہراتی ہوئی دھیرے دھیرے ناچتی آئے صبوحی اور پھر گھل کے کھو جائے کہیں میری غزل گاتی ہوئی
  5. Umair Maqsood

    احمد ندیم قاسمی قطعات

    یوں مرے ذہن میں لرزاں ہے ترا عکسِ جمیل دلِ مایوس میں یوں گاہے ابھرتی ہے آس ٹمٹماتا ہے وہ نوخیز ستارا جیسے دور مسجد کے اس ابھرے ہوئے مینار کے پاس
  6. Umair Maqsood

    احمد ندیم قاسمی قطعات

    چاند نکلا ہے سرِ بام لبِ بام آؤ دل میں اندیشۂ انجام نہ آنے پائے کچھ اس انداز سے اُترو میری تنہائی میں کھوج میں گردشِ ایام نہ آنے پائے
  7. Umair Maqsood

    احمد ندیم قاسمی قطعات

    آدمی جو ہَوا سے بھی نِکل جائیں گے چاند پر عَظمتِ آدم کا عَلم لہرانے قابلِ داد ہے یہ جراءتِ پرواز مگر چاندنی کو بھی کہیں بانٹ نہ لیں دیوانے
  8. Umair Maqsood

    احمد ندیم قاسمی قطعات

    تو میرا شعور میرا وجدان تو میرا یقین میرا ایمان میں تیری سپردگی کا معیار تو میری پرستشوں کی پہچان
  9. Umair Maqsood

    احمد ندیم قاسمی قطعات

    ذرۂِ خاک میں ادراک کی حدت بھر کر اپنی تخلیق کے شُعلوں میں نہ جَل جاؤں کہیں روشنی ہی سہی اس دور کی تہذیب کا اُوج موم کی طرح چمک کر نہ پگھل جاؤں کہیں
  10. Umair Maqsood

    احمد ندیم قاسمی قطعات

    میرے ماضی کے لمحے لمحے کا جتنا پھیلاؤ تھا، سمٹنے لگا حرف ڈوُبے ہُوئے، اُبھرنے لگے وقت جاتا ہُوا، پلٹنے لگا
  11. Umair Maqsood

    احمد ندیم قاسمی قطعات

    ماحول کے خول سے نکل کر یہ نکتہ سمجھتے کاش! ہم لوگ ہر فرد کے اَن گِنت خُدا ہیں اب تک ہیں صَنم تراش، ہم لوگ
  12. Umair Maqsood

    ابن انشا ہماری باتیں ہی باتیں ہیں

    ہماری باتیں ہی باتیں ہیں ایک بی بی نے کہ مشہور صحافن ہیں ایک اخبار میں مضمون لکھا ہے۔ جس میں کاہلی کی خوبیاں گنوائی ہیں۔ کاہل ہم بھی ہیں لیکن یہ کبھی خیال نہ آیا تھا کہ ہمارا تصور جاناں کیے ہوئے لیٹے رہنا بھی ایک کمال ہے اور جس طرح کا بھی کسی میں ہو کمال اچھا ہے۔ یہ بی بی بھی ہماری عادت کی...
  13. Umair Maqsood

    احمد ندیم قاسمی کون سُنے

    کون سُنے فراز دار سے تا پستیِ حفاظت ذات کوئی نہیں جو احساس کی صدا سُن لے اسی لیے تو ہر انسان کے لب پہ ہے یہ دعا خُدا کرے میری بپتا مرا خدا سُن لے مطالبہ ہے یہ ہم عصر حق پرستوں کا فضا میں چیخ سُنائی بھی دے، دکھائی بھی دے یقیں سے کون کہے نغمے ہیں کہ فریادیں افق افق اگر اک شور سا سُنائی بھی دے...
  14. Umair Maqsood

    احمد ندیم قاسمی تجھے اظہار محبت سے اگر نفرت ہے

    تجھے اظہار محبت سے اگر نفرت ہے تو نے ہونٹوں کو لرزنے سے تو روکا ہوتا بےنیازی سے مگر کانپتی آواز کے ساتھ تو نے گھبرا کے میرا نام نہ پوچھا ہوتا تیرے بس میں تھی اگر مشعل جذبات کی لو تیرے رخسار میں گلزار نہ بھڑکا ہوتا یوں تو مجھ سے ہوئیں صرف آب وہوا کی باتیں اپنے ٹوٹے ہوئے فقروں کو تو پرکھا ہوتا...
  15. Umair Maqsood

    احمد ندیم قاسمی لالہ و گُل کے جو سامان بہم ہو جاتے

    غزل لالہ و گُل کے جو سامان بہم ہو جاتے فاصلے دشت و چمن زار میں کم ہو جاتے ہم نے ہر غم سے نکھاری ہیں تمہاری یادیں ہم کوئی تم تھے کہ وابستۂ غم ہو جاتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خود کو کھویا تو نہیں، تم کو نہ پایا، نہ سہی تم کو پاتے تو اسی کیف میں ضم ہو جاتے صرف ہم پر ہی نہ یہ حادثہ ہوتا موقوف تم...
  16. Umair Maqsood

    احمد ندیم قاسمی سونا

    سونا تم کہتے ہو آفتاب ابھرا میں کہتا ہوں جل رہا ہے سونا پیڑوں سے گزر رہی ہیں کرنیں ہاتھوں سے نکل رہا ہے سونا مشرق کی تمازتِ اَنا سے مغرب میں پگھل رہا ہے سونا
  17. Umair Maqsood

    احمد ندیم قاسمی دشتِ وفا

    دشتِ وفا دوست کہتے ہیں ترے دشتِ وفا میں کیسے اتنی خوشبو ہے، مہکتا ہو گلستاں جیسے گو بڑی چیز ہے غم خواریِ اربابِ وفا کتنے بیگانۂ آئینِ وفا ہیں یہ لوگ زخم در زخم محبت کے چمن زار میں بھی فقط اک غنچۂ منطق کے گدا ہیں یہ لوگ میں اُنھیں گلشنِ احساس دکھاؤں کیسے جن کی پروازِ بصیرت پرِ بلبل تک ہے وہ نہ...
  18. Umair Maqsood

    احمد ندیم قاسمی فکر

    فکر راتوں کی بسیط خامشی میں جب چاند کو نیند آ رہی ہو پھولوں سے لدی خمیدہ ڈالی لوری کی فضا بنا رہی ہو جب جھیل کے آئینے میں گھل کر تاروں کا خرام کھو گیا ہو ہر پیڑ بنا ہوا ہو تصویر ہر پھول سوال ہو گیا ہو جب خاک سے رفعتِ سما تک ابھری ہوئی وقت کی شکن ہو جب میرے خیال سے خدا تک صدیوں کا سکوت خیمہ...
  19. Umair Maqsood

    احمد ندیم قاسمی روایت

    روایت قدموں کے نقوش ہوں کے چہرے قبروں کے گلاب ہوں کہ سہرے تاریخ کے بولتے نشاں ہیں تہذیب کے سلسلے رواں ہیں یہ رسمِ جہاں قدیم سے ہے آدم کا بھرم ندیم سے ہے
  20. Umair Maqsood

    احمد ندیم قاسمی دعوت

    دعوت اے میری پرستشوں کے حقدار آ، میں تیرے حسن کو نکھاروں چہرے سے اُڑا کے گردِ ایام آ، میں تیری آرتی اُتاروں! تُو میری زباں بھی، آسماں بھی میں تجھ کو کہاں کہاں پکاروں
Top