احمد ندیم قاسمی دشتِ وفا

Umair Maqsood

محفلین
دشتِ وفا

دوست کہتے ہیں ترے دشتِ وفا میں کیسے
اتنی خوشبو ہے، مہکتا ہو گلستاں جیسے

گو بڑی چیز ہے غم خواریِ اربابِ وفا
کتنے بیگانۂ آئینِ وفا ہیں یہ لوگ
زخم در زخم محبت کے چمن زار میں بھی
فقط اک غنچۂ منطق کے گدا ہیں یہ لوگ

میں اُنھیں گلشنِ احساس دکھاؤں کیسے
جن کی پروازِ بصیرت پرِ بلبل تک ہے
وہ نہ دیکھیں گے کبھی حدِ نظر سے آگے
اور میری حدِ نظر، حدِ تخیل تک ہے

دل کے بھیدوں کو بھی منطق میں جو اُلجھاتے ہیں
یوں سمجھ لیں کہ ببولوں میں بھی پھول آتے ہیں
 
Top