عید کا دن ہے فضا میں گونجتے ہیں قہقہے
جھولتی ہیں لڑکیاں جھولوں پہ گاتی ہیں ملہار
میرا جھولا جس سے ہیں لپٹے ہوئے سرسوں کے پھول
دیکھتا ہے ایک نکڑ کو لپک کر بار بار
گائیں ڈکراتی ہوئی پگڈنڈیوں پر آ گئیں
مرلیاں ہاتھوں میں لے کر مست چرواہے بڑھے
بیریوں کے دھندلے سایوں میں کھڑا ہوں منتظر
ایک لڑکی کا گزرنا ہے یہاں سے دن چڑھے
گلوں میں رنگ تو تھا رنگ میں جلن تو نہ تھی
مہک میں کیف تو تھا کیف میں جنوں تو نہ تھا
بدل دیا ترے غم نے بہار کا کردار
کہ اب سے قبل چمن کا مزاج یوں تو نہ تھا
گورے ہاتھوں میں یہ دھانی چوڑیوں کی آن بان
کالی زلفوں پر گلابی اوڑھنی کی آب و تاب
ہر قدم پر نقرئی خلخال کے نغموں کی لہر
تیرے پیکر میں مجسم ہو گئی روحِ شباب
لڑکیاں چنتی ہیں گیہوں کی سنہری بالیاں
کاٹتے ہیں گھاس مینڈھوں پر سے بانکے نوجواں
کھوئی کھوئی ایک لڑکی بیریوں کی چھاؤں میں
دیکھتی ہے گھاس پر لیٹی ہوئی جانے کہاں