نتائج تلاش

  1. Qaisar Aziz

    پروین شاکر خواب کیا کوئی دیکھے، نیند کے انجام کے بعد

    خواب کیا کوئی دیکھے، نیند کے انجام کے بعد کس کو جینے کی ہوس، حشر کے ہنگام کے بعد عشق نے سیکھ ہی لی وقت کی تقسیم کہ، اب وہ مجھے یاد تو آتا ہے، مگر کام کے بعد ایک ہی اِسم کو بارش نے ہرّا رکھا ہے پیڑ پہ نام تو لکھے گئے اُس نام کے بعد ہندسے گِدھ کی طرح دن مِرا کھا جاتے ہیں حرف ملنے مجھے آتے ہیں،...
  2. Qaisar Aziz

    امجد اسلام امجد اے گردشِ حیات! کبھی تو دِکھا وہ نیند

    اے گردشِ حیات! کبھی تو دِکھا وہ نیند جِس میں شبِ وصال کا نشّہ ہو، وہ نیند ہرنی سی ایک، آنکھ کی مستی میں قید تھی اِک عمر جس کی کھوج میں پھرتا رہا، وہ نیند پُھوٹیں گے اب نہ ہونٹ کی ڈالی پہ کیا گلاب؟ آئے گی اب نہ لَوٹ کے آنکھوں میں کیا، وہ نیند کُچھ رُتجگے سے جاگتی آنکھوں میں رہ گئے زنجیرِ...
  3. Qaisar Aziz

    اب تو خواہش ہے یہ

    :-)
  4. Qaisar Aziz

    اب تو خواہش ہے یہ

    اب تو خواہش ہے یہ ایسی آندھی چلے جس میں پتوں کی مانند بکھر جائیں ہم کوئی ہمدم نہ راہی نہ راحت ملے ایک پل کی محبت نہ چاہت ملے اب تو خواہش ہے یہ ایسی آندھی چلے دشت ہی دشت ہو ننگے پاوں چلیں ہم سرِ بزم شمع کی مانند جلیں ابن آدم کی چاہ کے کڑے جرم میں اپنی ہی ذات کے کھوکھلے بھرم میں اب تو خواہش ہے یہ...
  5. Qaisar Aziz

    فراز سو صلیبیں تھیں، ہر اِک حرفِ جنُوں سے پہلے

    سو صلیبیں تھیں، ہر اِک حرفِ جنُوں سے پہلے کیا کہوں اب میں "کہُوں یا نہ کہُوں" سے پہلے اس کو فرصت ہی نہیں دوسرے لوگوں کی طرح جس کو نسبت تھی مرے حالِ زبُوں سے پہلے کوئی اِسم ایسا، کہ اُس شخص کا جادو اُترے کوئی اعجاز، مگر اُس کے فسُوں سے پہلے بے طلب اُسکی عنایت ہے تو حیران ہوں میں ہاتھ مانُوس نہ...
  6. Qaisar Aziz

    وفورِ شوق میں جب بھی کلام کرتے ہیں

    وفورِ شوق میں جب بھی کلام کرتے ہیں تو حرف حرف کو حُسنِ تمام کرتے ہیں گَھنے درختوں کے سائے کی عمر لمبی ہو کہ ان کے نیچے مسافر قیام کرتے ہیں اُسے پسند نہیں خواب کا حوالہ بھی تو ہم بھی آنکھ پہ نیندیں حرام کرتے ہیں نہ خُوشبُوؤں کو پتہ ہے نہ رنگ جانتے ہیں پرند، پُھولوں سے کیسے کلام کرتے ہیں؟...
  7. Qaisar Aziz

    خُود اپنی گواہی کا بھروسہ بھی نہیں کُچھ

    خُود اپنی گواہی کا بھروسہ بھی نہیں کُچھ اور اپنے حریفوں سے تقاضہ بھی نہیں کُچھ خُود توڑ دیئے، اپنی انا کے در و دیوار سایہ تو کُجا سائے کا جھگڑا بھی نہیں کُچھ صحرا میں بھلی گُزری، اکیلا تھا تو کیا تھا لوگوں میں کسی بات کا چرچا بھی نہیں کُچھ اب آ کے کُھلا، کوئی نہیں، کُچھ بھی نہیں تھا اور اس پہ...
  8. Qaisar Aziz

    جون ایلیا غزل - نیا اک ربط ہیدا کیوں کریں ہم - جون ایلیا

    نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم خموشی سے ادا ہو رسمِ دوری کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں وفاداری کا دعویٰ کیوں کریں ہم وفا، اخلاص، قربانی،مرو ّت اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم سنا دیں عصمتِ مریم کا قصّہ؟ پر اب اس باب کو وا کیوں...
  9. Qaisar Aziz

    زمیں پہ بوجھ تھے، کیا زیرِ آسماں رہتے

    زمیں پہ بوجھ تھے، کیا زیرِ آسماں رہتے یہ کائنات پرائی تھی، ہم کہاں رہتے؟ ہم ایسے بے سروساماں جہانِ امکاں میں ہزار سال بھی رہتے تو بے نشاں رہتے جو ہم لہو کی شہادت بھی پیش کر دیتے جو بدگماں تھے بہ ہر حال بدگماں رہتے کوئی فریبِ وفا ہی میں مبتلا رکھتا تو اُس کے جور و جفا پر بھی شادماں رہتے...
  10. Qaisar Aziz

    بسا ہوا تھا مرے دل میں، درد جیسا تھا

    بسا ہوا تھا مرے دل میں، درد جیسا تھا وہ اجنبی تھا مگر گھر کے فرد جیسا تھا کبھی وہ چشمِ تصوّر میں عکس کی صورت کبھی خیال کے شیشے پہ گرد جیسا تھا جدا ہوا نہ لبوں سے وہ ایک پل کے لیے کبھی دعا، تو کبھی آہِ سرد جیسا تھا سفر نصیب مگر بے جہت مسافر تھا وہ گردباد سا، صحرا نورد جیسا تھا جنم کا ساتھ...
  11. Qaisar Aziz

    بچوں کی طرح دل سے لگا رکھے تھے ایسے

    بچوں کی طرح دل سے لگا رکھے تھے ایسے غم جیسے کھلونے ہوں، اُٹھا رکھے تھے ایسے دیکھے سے جنہیں پھول کھلیں دشتِ وفا میں دامن پہ کئی داغ سجا رکھے تھے ایسے احساسِ ندامت سے بچا رکھا تھا سب کو آنسو مری پلکوں نے چھپا رکھے تھے ایسے پھل پھول تھے جن پر نہ گھنی چھاؤں تھی جن کی مالی نے بہت پیڑ اُگا رکھے تھے...
  12. Qaisar Aziz

    رِند کو مے چاہیے، واعظ کو ایماں چاہیے

    رِند کو مے چاہیے، واعظ کو ایماں چاہیے اپنی اپنی خواہشوں کا سب کو زِنداں چاہیے دو عناصر ہوں تو بنتا ہے غزالاں کا مزاج خُوئے وحشت چاہیے اور دشتِ حیراں چاہیے ریگِ صحرا کی طرح سنگِ ملامت آئے ہیں اس ذخیرہ کے لئے بھی اِک بیاباں چاہیے اے مسیحا! کیا ہے معیار شفا بخشی تِرا کتنی گہرائی تلک یہ زخم...
  13. Qaisar Aziz

    غم کا بادل تری زُلفوں سے گھنیرا نکلا

    غم کا بادل تری زُلفوں سے گھنیرا نکلا سایۂ ابر بھی قسمت کا اندھیرا نکلا سو گئے چاند ستارے تو اُجالا جاگا چل دیئے ہجر کے مارے تو سویرا نکلا اپنا گھر چھوڑ کے جانا کوئی آساں تو نہیں ہاتھ ملتا مرے آنگن سے اندھیرا نکلا نیند نے لوٹ لیے خواب خزانے میرے جس کو آنکھوں میں بسایا تھا لُٹیرا نکلا ٹُوٹ کر...
Top