غزل
دربدری کا دور ہے ، حرفِ سخن سرا میں رہ
معنی و مدعا میں جی ، رقص و رَمِ صبا میں رہ
شیشۂ تاکِ تازہ میں موج ِ مئے ہنر کہاں
کہنہ خُمار میں اتر ، نشّۂ پیش پا میں رہ
روشنی اور تیرگی دَور بہ دَور ساتھ ہیں
وقتِ نبود و بُود ہے ، لمحۂ سُرمہ سا میں رہ
نام و نمود کی ہوَس خوب سہی پہ تا بہ کے
خود میں...