یہ شعر ساغرؔ صدیقی کا ہے اور یوں ہے:
حوروں کی طلب اور مے و ساغر سے ہے نفرت
زاہد ترے عرفان سے کچھ بھول ہوئی ہے
میرا خیال ہے کہ حور کی حسرت تو شاعر کے اپنے تصور میں ہے ۔
ویسےشاعر کی منطق غلط ہے ۔ زاہد کو تو جنت کی طلب ہے ۔ اور مے و ساغر سے پرہیز اسی جنت کے لیے ہے ۔
یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی شخص ابتدائے زندگی میں عیش و آرام سے پرہیز کرتے ہوئے خوب محنت مشقت کرتا ہے تاکہ کامیاب آدمی بن سکے ، خوب دولت کماسکے اور پھر آخر میں عیش و آرام کی زندگی گزارے۔