اندرون اٹلانٹا

سید عاطف علی

لائبریرین
خوب !!!
پہلے میں سمجھا کو ئی مذہبی پس منظر ہوگا کہ یہ کسی بڑی مچھلی کی پسلیاں لگیں جس میں انسان گزر رہا ہے ۔
سولر پینل لگے ہیں شاید رات کو لائٹنگ بھی ہوتی ہو تو منظر اور ہو ۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین

زیک

مسافر
خوبصورت ، مسکووی بطخ ہے شاید ۔
پالتو بھی رکھی جاتی ہے ۔ ترکی مرغ کی طرح مرجھایا سا واٹل ہوتا ہے ۔
یہ عجب بات ہے کہ عربی میں ترکی مرغ کو دیک الرومی کہتے ہیں ۔یعنی رومی مرغا ۔
مزے کی بات یہ ہے کہ مسکووی بطخ کا ماسکو سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ امریکا اور میکسیکو وغیرہ کی بطخ ہے۔
 

زیک

مسافر
امریکا کی شاید سبھی ریاستوں اور وفاقی کیپٹل بلڈنگز پر گنبد ضرور ہوتا ہے۔ اس کا تاریخی پس منظر کیا ہے؟
اکثریت میں گنبد ہے لیکن تمام میں نہیں۔ زیادہ تر یہ عمارات کلاسیکل یونانی اور رومن (بزنطینی نہیں) طرز تعمیر سے متاثر ہیں
 

سید عاطف علی

لائبریرین
آپ کے ذہن میں جو آیا اسے تفصیل سے بیان کریں خوب رہے گا
مطلب پیغمبر یونس علیہ السلام کا قصہ قران مجید کے علاوہ مسیحی اور یہودی مذہبی روایات میں بھی ہو گا سو یہ اس کا کوئی یادگار مانومنٹ ہو، لیکن یہ تو کشتی کا ڈھانچہ نکلا۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اردو میں اٹلانٹا لکھتے ہوئے عجیب سا لگتا ہے کہ ٹ کی آواز خوب کرخت ہے جبکہ اٹلانٹا کے دونوں ٹی تقریبا خاموش ہیں۔ لیکن مرتے کیا نہ کرتے احباب نے یہی ہجے کئے ہیں۔

اپنے ہی شہر کا کیا سفرنامہ لکھنا لیکن پچھلے ماہ کام کے سلسلے میں کچھ دن ڈاؤن ٹاؤن رہنا ہوا تو فارغ اوقات پیدل چلتے گزارے اور کچھ تصاویر لیں۔

ظہیر احمد ظہیر کیا ڈاؤن ٹاؤن کا ترجمہ اندرون شہر ٹھیک ہے؟
آپ نے غلط والے ظہیراحمد ظہیر کو ٹیگ کردیا ۔ صفحات کی ورق گردانی کرتے ہوئے یہاں پہنچا تو آپ کا یہ مراسلہ دیکھا۔ یہ میرے ہم نام صاحب میرے حصے کی داد کے کئی ٹوکرے اور متعدد غزلیں نظمیں وغیرہ ہضم کرچکے ہیں۔ :) میری خواہش تھی کہ میرا نام تبدیل کرکے ظہیر احمد کردیا جائے ۔ اس بارے میں دو تین سال پہلےمحفل پر موجود نام تبدیل کرنے کا آپشن استعمال کرتے ہوئے ایک عدد درخواست بھی دائر کی تھی لیکن وہ شاید کسی جگہ پہنچے بغیر ردی کی ٹوکری کی نذر ہوگئی۔ خیر ، یہ تو ایک جملۂ معترضہ تھا ۔ آپ نے ناموں کی ٹرانسلٹریشن کے بارے میں بہت دلچسپ نکتہ اٹھایا ہے۔ اس وقت تو مسجد کے لیے نکلنا ہے ۔ان شاءاللہ عشاء کے بعد آکر تفصیلاً لکھتا ہوں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
@ظہیر احمد ظہیر کیا ڈاؤن ٹاؤن کا ترجمہ اندرون شہر ٹھیک ہے؟
اندرونِ شہر کی اصطلاح اردو میں inner-city یعنی شہر کے قدیم حصے کے لیے استعمال ہوتی ہے ۔ اردو نثر نگاروں نے ڈاؤن ٹاؤن کے لیے صدر ، صدر ِشہر ، مرکزِ شہر یا قلبِ شہر کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔

اردو میں اٹلانٹا لکھتے ہوئے عجیب سا لگتا ہے کہ ٹ کی آواز خوب کرخت ہے جبکہ اٹلانٹا کے دونوں ٹی تقریبا خاموش ہیں۔ لیکن مرتے کیا نہ کرتے احباب نے یہی ہجے کئے ہیں۔
ٹرانسلٹریشن کا یہ "مسئلہ" صرف اردو کے ساتھ ہی مخصوص نہیں بلکہ ایک عالمگیر مسئلہ ہے اور دنیا کی ہر زبان کو درپیش ہے۔ اس کی سیدھی سادی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی دو زبانوں کی صوتیات سو فیصد ایک جیسی نہیں ہیں ۔ مثلاً انگریزی زبان میں لاڑکانہ کو لارکانہ اور دہلی کو ڈیلی بولا جاتا ہے ، بیجنگ کا تلفظ چینی زبان کے اصل تلفظ سے بہت ہی مختلف کیا جاتا ہے۔ عربی لوگ پاکستان کو باکستان کہتے ہیں جبکہ امریکی حضرات سعودی عرب کو ساءڈی کہتے ہیں ۔(ایک دوست کے بقول اگر اس لفظ کے پنجابی معنی لیے جائیں تو یہ اتنا غلط بھی نہیں ہے :) )۔ وغیرہ وغیرہ ۔
چنانچہ ٹرانسلٹریشن کا یہ اختلاف فطری ہے اور فی نفسہ کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اردو دنیا میں ایسا کوئی مقتدر ادارہ نہیں کہ جو بیرونی زبانوں سے آنے والے الفاظ یا اصطلاحات کا ایک معیاری املا متعین کردے۔ چنانچہ جواملا کسی لکھاری نے شروع میں لکھ دیا وہ اکثر اُسی طرح رائج ہو جاتا ہے۔ چونکہ لکھنے کا بنیادی مقصد ابلاغ ہے اس لیے کسی معروف اور مروجہ املا کو بلاوجہ تبدیل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔

اصل مسئلہ جو دنیا کی اکثر زبانوں میں موجود ہے وہ تلفظ اور املا کی غیرمطابقت کا مسئلہ ہے۔ الفاظ جس طرح بولے جاتے ہیں اکثر اُس طرح لکھے نہیں جاتے۔ یعنی تلفظ(صوتی شکل) اور املا (تحریری شکل) میں ایک داخلی بُعد موجود ہے۔ بولی جانے والی ہر آواز کے لیے ایک علیحدہ علیحدہ حرف بہت کم زبانوں میں پایا جاتا ہے ۔ چنانچہ لغت نگاروں کو کاغذ پر درست تلفظ ظاہر کرنے کے لیے اضافی علامات اور اشکال ایجاد کرنا پڑتی ہیں ۔ تلفظ اور املا کا یہ اختلاف کچھ زبانوں میں کم اور کچھ میں زیادہ ہے۔( مثلاً تلفظ اور املا کا یہ فرق فرانسیسی زبان میں تو بہت ہی نمایاں ہے بلکہ اسے اس زبان کی پہچان سمجھا جاتا ہے ۔ کہا یہ جاتا ہے کہ جدیدفرانسیسی زبان لاطینی اور گالش زبانوں کی آمیزش سے بنی ۔اس میں الفاظ کا بڑا ذخیرہ تو گالش زبان کا ہے لیکن رسم الخط لاطینی زبان سے آیا ۔ چنانچہ اب فرانسیسی الفاظ میں لکھو عیسٰی اور پڑھو موسیٰ والی کیفیت عام نظر آتی ہے۔:)) خود انگریزی زبان میں بہت سارے الفاظ جس طرح لکھے جاتے ہیں ویسے بولے نہیں جاتے ۔ بہت سارے الفاظ کے املا میں خاموش حروف کی موجودگی ایک عام سی بات ہے۔ ایک حرف کسی لفظ میں جس طرح بولا جاتا ہے وہی حرف کسی دوسرے لفظ میں مختلف طریقے سے ادا کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے اکثرcut اور put کی گھسی پٹی مثال دی جاتی ہے ۔ وغیرہ وغیرہ
ماہرینِ لسانیات کے مطابق تلفظ اور املا میں غیر مطابقت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ الفاظ کا تلفظ متعدد وجوہات کی بنا پر وقت کے ساتھ ساتھ بتدریج بدلتا جاتاہے جبکہ املا میں تبدیلی نہیں ہوتی۔ املا وہی پرانا ہی رہتا ہے ۔اس کی ایک واضح مثال امریکی زبان ہے ۔ اگرچہ کولمبس کے بعد امریکا میں اول اول آنے والے مہاجرین انگریز تھے لیکن رفتہ رفتہ امریکیوں کا تلفط اصل انگریزی زبان سے مختلف ہوگیا۔ امریکا کے کئی شہروں کے نام فرانسیسی میں رکھے گئے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اب ان کا تلفظ اصل فرانسیسی زبان سے بہت ہی مختلف ہوچکا ہے ۔ مثلاً آئیوا کا شہر Des Moines۔چنانچہ کسی بھی زبان میں چند نسلوں کے بعد تلفظ میں کسی قدر تبدیلی کا آجانا فطری بات سمجھاجاتا ہے۔(میری پیشین گوئی ہے کہ موجودہ اردو میڈیا میں پنجابی لہجے کی کثرت کے باعث اردو کے بہت سارے الفاظ کا تلفظ بھی اگلے چالیس پچاس برسوں میں تبدیل ہوجائے گا۔)
اردو کا رسم الخط عربی/فارسی سے آیا لیکن اچھی بات یہ ہوئی کہ کچھ عقلمند لوگوں نے ہندی الفاظ کی آوازیں لکھنے کے لیے ٹ ، ڑ ، ڈ اور مخلوط حروف ایجاد کردیئے۔(ورنہ ہم بھی آج ٹنڈے کو تندے لکھ رہے ہوتے۔:D)۔ ز، ذ، ظ اور ض ، س ، ث، ص وغیرہ کے مخارج عربوں کے ہاں تو علیحدہ علیحدہ ہیں لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ یہ حروف اردو والوں کے ہاں ہم صوت بن چکے ہیں۔ چنانچہ اب اردو الفبائی میں ضرورت سے زیادہ حروف موجود ہیں ۔ انہیں نکالا اس لیے نہیں جاسکتا کہ املا بدلنے سے لفظ کے معانی اور اُن الفاظ پر لاگو ہونے والے گرامر کے اصول بدل جاتے ہیں ۔ مثلاً صعودی اور سعودی ، کسرت اور کثرت وغیرہ۔

اپنے ہی شہر کا کیا سفرنامہ لکھنا لیکن پچھلے ماہ کام کے سلسلے میں کچھ دن ڈاؤن ٹاؤن رہنا ہوا تو فارغ اوقات پیدل چلتے گزارے اور کچھ تصاویر لیں۔
یاد پڑتا ہے کہ 2019 کے نومبر میں چند روز کے لیے اٹلانٹا ڈاؤن ٹاؤن میں جارجیا کانگریس سینٹر میں امریکن کالج آف رہیومیٹالوجی کی سالانہ کانفرنس میں شرکت کے لیے جانا ہوا تھا۔ وہیں کانفرنس کےبالکل قریب ہی کسی ہوٹل میں قیام تھااور وہاں سے کانفرنس تک روزانہ پیدل ہی آنا جانا ہوتا تھا۔ سی این این ٹاور بھی وہیں راستے میں نظر آتا تھا۔ اور راستے کے کسی چوک میں چمکدار اسٹیل کا بنا ہوا ایک بڑا سا دل کی شکل کا مجسمہ بھی یاد پڑتاہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یہی بات ٹورونٹو کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ انگریزی میں ٹ کی آواز خاصی مدھم ہے۔ اردو میں بہت نمایاں۔

ٹورانٹو کے دونوں ٹ بولے جاتے ہیں جبکہ اٹلانٹا کا مقامی تلفظ اتلانّا ہے
ان دونوں لفظوں کے دونوں تلفظ ہی رائج ہیں اور درست ہیں۔ ٹورونٹو میں رہنے والے دوستوں کے بچے "ٹُ-رانو" بولتے ہیں یعنی پہلی T نرم اور دوسری T خاموش۔ جبکہ امریکی اور اکثر کینیڈین دونوں T ادا کرتے ہیں یعنی "ٹُ-ران-ٹو"۔ چنانچہ یہ دونوں تلفظ ہی معروف و مقبول ہیں۔ سمجھنے میں کسی کو کوئی دقت نہیں ہوتی۔ یہی حال اٹلانٹا کا ہے۔ اٹلانٹا شہر یا جارجیا کے اکثر مقامی لوگ پہلی T نرم اور دوسری T خاموش تلفظ کرتے ہیں یعنی "اِٹ۔لے۔نا" ۔ لیکن جارجیا کے باہر تقریباً تمام لوگ اسے "اِٹ-لین-ٹا" ہی بولتے ہیں۔
ویسے مستند انگریزی لغت Merriam-Webster کے مطابق "اِٹ-لین-ٹا" اور "ٹُ-ران-ٹو" ہی معروف اور مستند تلفظ ہیں۔یعنی ان لفظوں میں دوسری T کو خاموش رکھنا وہاں کے مقامی لوگوں کا لہجہ ہے۔ اس سےیہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ کچھ لفظوں کا تلفظ گزرتےوقت کے ساتھ ذرابدل سکتا ہے اور بدلتا رہتا ہے ۔ بتیس سال پہلے جب میں امریکا آیا تھا تو بعض اوقات سیاہ فام امریکیوں کا لہجہ سمجھنے میں مشکل ہوتی تھی۔ پھر رفتہ رفتہ کان عادی ہوگئے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بیلٹ لائن پر پل کے نیچے ایک میورل

یہ میورل سے زیادہ تو گرافٹی لگ رہی ہے جو مغرب کے اکثر بڑے شہروں کا مسئلہ ہے ۔ میں جب شکاگو اور ایمسٹرڈیم میں رہتا تھا تو کبھی کبھار خاص طور پر گرافٹی دیکھنے اور انہیں اسٹڈی کرنے نکلاکرتا تھا تاکہ اپنی تجریدی خطاطی کے لیے کچھ آئیڈیے لے سکوں۔
 

عثمان

محفلین
ان دونوں لفظوں کے دونوں تلفظ ہی رائج ہیں اور درست ہیں۔ ٹورونٹو میں رہنے والے دوستوں کے بچے "ٹُ-رانو" بولتے ہیں یعنی پہلی T نرم اور دوسری T خاموش۔ جبکہ امریکی اور اکثر کینیڈین دونوں T ادا کرتے ہیں یعنی "ٹُ-ران-ٹو"۔ چنانچہ یہ دونوں تلفظ ہی معروف و مقبول ہیں۔ سمجھنے میں کسی کو کوئی دقت نہیں ہوتی۔ یہی حال اٹلانٹا کا ہے۔ اٹلانٹا شہر یا جارجیا کے اکثر مقامی لوگ پہلی T نرم اور دوسری T خاموش تلفظ کرتے ہیں یعنی "اِٹ۔لے۔نا" ۔ لیکن جارجیا کے باہر تقریباً تمام لوگ اسے "اِٹ-لین-ٹا" ہی بولتے ہیں۔
ویسے مستند انگریزی لغت Merriam-Webster کے مطابق "اِٹ-لین-ٹا" اور "ٹُ-ران-ٹو" ہی معروف اور مستند تلفظ ہیں۔یعنی ان لفظوں میں دوسری T کو خاموش رکھنا وہاں کے مقامی لوگوں کا لہجہ ہے۔ اس سےیہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ کچھ لفظوں کا تلفظ گزرتےوقت کے ساتھ ذرابدل سکتا ہے اور بدلتا رہتا ہے ۔ بتیس سال پہلے جب میں امریکا آیا تھا تو بعض اوقات سیاہ فام امریکیوں کا لہجہ سمجھنے میں مشکل ہوتی تھی۔ پھر رفتہ رفتہ کان عادی ہوگئے۔
درست تجزیہ ہے۔ شہروں کے مقامی تلفظ کو عموماً نرم/سہل کر لیا جاتا ہے باوجود اس کے کہ لغت میں اس کا معیاری تلفظ کچھ اور ہو۔ حتی کہ لاہور شہر نام کے مقامی تلفظ پنجابی کے زیر اثر ہونے کے باعث لغت کے معیار ی تلفظ سے مختلف ہیں۔
 

زیک

مسافر
ٹرانسلٹریشن کا یہ "مسئلہ" صرف اردو کے ساتھ ہی مخصوص نہیں بلکہ ایک عالمگیر مسئلہ ہے اور دنیا کی ہر زبان کو درپیش ہے۔
کئی بار یہ کافی دلچسپ بھی ہو جاتا ہے جیسے فرنچ میں نیویارک کو Nouvelle York نہیں بلکہ New York ہی کہا جاتا ہے لیکن نیو اورلیز کو Nouvelle Orléans کہتے ہیں کہ وہ فرنچ شہر تھا اور ریاستہائے متحدہ امریکا کو بھی ترجمہ کر کے États-Unis
 
Top