من از جفاش نترسم ولے ازاں ترسم
کہ عمرِ من بجفا کردنش وفا نکند

نورالدین محمد قراری گیلانی

میں اُس کی جفاؤں سے نہیں ڈرتا بلکہ مجھے اِس بات کا ڈر ہے
کہ میری عمر اُس کے جفا کرنے کے ساتھ وفا نہیں کرے گی
 
نیست در خشک و ترِ بیشۂ من کوتاہی
چوبِ ہر نخل کہ منبر نشَوَد دار کنم

میرے جنگل ( خدا کی دنیا) میں کوئی بھی خشک و تَر چیز بیکار نہیں ہے، جس درخت کی لکڑی سے منبر نہیں بن سکتا میں اس سے سولی بنا لیتا ہوں۔


محمد حسین نظیری نیشاپوری
 

محمد وارث

لائبریرین
تشنہ لب بر ساحلِ دریا ز غیرت جاں دہم
گر بہ موج افتد گمانِ چینِ پیشانی مرا

مرزا غالب دہلوی

اگر دریا کی لہریں دیکھ کر میرے دل میں یہ شبہ بھی گزر جائے کہ دریا نے مجھے دیکھ کر پیشانی پر بل ڈال لیے ہیں تو میری غیرت کا یہ عالم ہے کہ پیاسا ساحل پر جان دے دوں گا مگر حلق تر نہ کروں گا۔
(مترجم مولانا غلام رسول مہر، نوائے سروش)
 

سیما علی

لائبریرین
تشنہ لب بر ساحلِ دریا ز غیرت جاں دہم
گر بہ موج افتد گمانِ چینِ پیشانی مرا

مرزا غالب دہلوی

اگر دریا کی لہریں دیکھ کر میرے دل میں یہ شبہ بھی گزر جائے کہ دریا نے مجھے دیکھ کر پیشانی پر بل ڈال لیے ہیں تو میری غیرت کا یہ عالم ہے کہ پیاسا ساحل پر جان دے دوں گا مگر حلق تر نہ کروں گا۔
(مترجم مولانا غلام رسول مہر، نوائے سروش)
بہت اعلیٰ
جیتے رہیے وارث میاں جیتے رہیے !!!!!!

رات پی زمزم پہ مے اور صبح دم
دھوئے دھبّے جامۂ احرام کے!!!!
 
با دلِ پُردرد یادِ دوست کن
پُر زیادِ دوست مغز و پوست کن


دردِ دل کے ساتھ اپنے دوست کو یاد کر۔۔
اپنے ظاہر اور باطن کو یار کی یاد سے رنگ لے۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بسکہ بُوئے تو کُنَد بے خبر از خویش مرا
رَوَم از خانہ بہ دُنبالِ صبا آخرِ شب


محمد حسن قتیل لاہوری

بس کہ تیری خوشبو مجھے اپنے آپ سے بے خبر کر دیتی ہو، سو رات کے پچھلے پہر (سحر کے قریب) میں اپنے گھر سے نکل کر بادِ صبا (جو تیری خوشبو لیے ہوتی ہے) کے پیچھے پیچھے چل پڑتا ہوں۔
 
درطریقِ نفعِ خود کس نیست محتاجِ دلیل
بی‌عصا راهِ دهن معلوم باشد کور را
(بیدل دهلوی)

ترجمہ:
خود کے فائدے کی راہ (میں چلتے ہوئے) کسی کو بھی دلیل کی احتیاج نہیں رہتی (جیسے کہ) ایک نابینا کو (جبکہ وہ چلتے ہوئے اپنے عصا کے ذریعے پیش‌آمده چیزوں کو احساس کر کے ہی آگے قدم بڑھاتا ہے تاکہ ضرب کھانے سے بچ جائے اور بغیر عصا کی کمک کے، ہر قدم کو اپنے لئے کسی خطرے کا پیش‌خیمہ سمجھتا ہے) عصا کے بغیر ہی منہ کا راستہ معلوم ہوتا ہے۔
یعنی سُودِ خویش کے لئے عقل کو کسی دلیل کی حاجت نہیں ہوتی۔

منظوم ترجمہ:
حاجتِ رہبر نہیں راہِ حصولِ نفْع میں
بے عصا راہِ دہن معلوم ہے شب کور کو
(فضل اللہ فاؔنی صوابوی)

 
آخری تدوین:
جز خدا یابی کجا تسکینِ دل
یادِ دلدارِ بوَد تزھینِ دل

بجز یاد خدا تجھے تسکین کہاں ملے گی؟
یار کی یاد سے دل کو آراستہ کر لے

با دلِ پُردرد یادِ دوست کن
پُر زیادِ دوست مغز و پوست کن


دردِ دل کے ساتھ اپنے دوست کو یاد کر۔۔
اپنے ظاہر اور باطن کو یار کی یاد سے رنگ لے۔۔

اگر کسی مستند نسخے کے ذریعے شاعر کا نام معلوم ہو تو وہ بھی لکھا کریں، لیکن خیال رکھیں، صرف فضائے مجازی (انٹرنیٹ) پر اشعار کو کسی سے منسوب دیکھ کر یہاں شئیر نہ کریں جب تک کہ مستند حوالے سے معلوم نہ ہو۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی از شاہ نعمت اللہ ولی (رح)

ترساں ترساں ہمی روم بر اثرش
پرساں پرساں ز خلقِ عالم خبرش
آساں آساں اگر نیابم وصلش
بوساں بوساں لبِ من و خاکِ درش


ڈرتے ڈرتے اُس کی کھوج میں چلا جاتا ہوں، اور خلقِ عالم سے اُس کی خبر پوچھتا پھرتا ہوں۔ اُس کا وصل اگر مجھے آسانی سے نہیں ملتا تو اُس کے در کی خاک پر اپنے ہونٹوں سے بوسے دیے چلا جاتا ہوں۔
 
روزِ بزرگ‌داشتِ سعدی شیرازی آپ سب کو مبارک ہو۔

توبه کند مردم از گناه به شعبان
در رمضان نیز چشم‌هایِ تو مست است
(سعدی شیرازی)

لوگ شعبان میں گناہ سے توبہ کرتے ہیں۔ تمہاری چشمیں (آنکھیں) رمضان میں بھی مست ہیں۔
 

منہاج علی

محفلین
رُباعی از شاہ نعمت اللہ ولی (رح)

ترساں ترساں ہمی روم بر اثرش
پرساں پرساں ز خلقِ عالم خبرش
آساں آساں اگر نیابم وصلش
بوساں بوساں لبِ من و خاکِ درش


ڈرتے ڈرتے اُس کی کھوج میں چلا جاتا ہوں، اور خلقِ عالم سے اُس کی خبر پوچھتا پھرتا ہوں۔ اُس کا وصل اگر مجھے آسانی سے نہیں ملتا تو اُس کے در کی خاک پر اپنے ہونٹوں سے بوسے دیے چلا جاتا ہوں۔
ہاے ہاے۔
 
گفتی "ز خاک بیشترند اهلِ عشقِ من"
از خاک بیشتر نه که از خاک کم‌تریم
(سعدی شیرازی)

تو نے کہا کہ" میرے اہلِ عشق(یعنی میرے عاشق) خاک(کے حقیر ذروں ) سے زیادہ(تعداد میں) ہیں."
( نہیں نہیں بلکہ یوں کہا جانا چاہیے کہ ہم عاشق) خاک سے زیادہ نہیں بلکہ خاک سے کم‌تر ہیں(یعنی ہماری حیثیت خاک سے بھی زیادہ بے ارزش اور حقیر ہے)
 

حسان خان

لائبریرین
ای که جُز قتلِ مُحِبّان هُنَری نشْناسی
قُمْ سَرِيعاً وَخُذِ السَّيْفَ فَهٰذا رَاسِي
(عبدالرحمٰن جامی)


اے محبوب!۔۔۔ اے تم کہ اپنے مُحِبّوں کو قتل کرنے کے بجُز کوئی ہُنَر نہیں جانتے!۔۔۔ جَلدی سے اُٹھو اور تیغ اُٹھاؤ! یہ رہا میرا سر!۔۔۔

«جامی» اپنے محبوبِ قاتِل کے ہاتھوں جَلد سے جَلد قتل ہونے کی آرزو کر رہے ہیں اور تیغ سے کٹوانے کی نِیّت سے خود ہی اپنا سر آگے بڑھا رہے اور محبوب کو پیش کر رہے ہیں۔ «جامی» کا محبوب بھی وہ ہے جو بہ قَولِ «جامی» مُحِبّوں کو قتل کرنے کے بجُز کوئی ہُنَر نہیں جانتا۔
(مُتَرجِم: حسّان خان)
 

حسان خان

لائبریرین
سُرُورِ خاطِرِ شَوکت بُوَد ز مُژدهٔ غم
به او رسان خبرِ ماتَمی که عید کُنَد
(شَوکت بُخاری)

«شَوکَت» کے قلب و ذہن کو مَسَرَّت غم کی خوش‌خبری سے مِلتی ہے۔۔۔ اُس کو کِسی سوگ کی خبر پُہنچاؤ تاکہ وہ عید کرے (جشن برپا کرے)!۔۔۔

(مُتَرجِم: حسّان خان)
 

حسان خان

لائبریرین
ای ابر چراست روز و شب چشمِ تو تر
وی فاخته چند زار نالی به سَحَر
ای لاله چرا جامه دریدی در بر
از یار جُدایید چو مسعود مگر
(مسعود سعد سلمان لاهوری)

اے اَبر! شب و روز تمہاری آنکھ تر کیوں ہے؟۔۔۔ اور اے فاختہ! تم کب تک سَحَر کے وقت زاری کے ساتھ نالہ کرو گی؟۔۔۔ اے گُلِ لالہ! تم نے اپنے سینے پر جامہ کیوں پھاڑ ڈالا؟۔۔۔ آیا تم سب بھی «مسعود» کی طرح یار سے جُدا ہو کیا؟۔۔۔

مِصرعِ چہارُم کا یہ ترجمہ بھی کِیا جا سکتا ہے: شاید تم سب بھی «مسعود» کی طرح یار سے جُدا ہو۔۔۔

(مُتَرجِم: حسّان خان)
 

حسان خان

لائبریرین
باز آ که عظیم دردناکم ز غمت
پیراهنِ صبر کرده چاکم ز غمت
اُفتاده مِیانِ خون و خاکم ز غمت
القِصّه بِطُولِها هلاکم ز غمت
(عبدالرحمٰن جامی)

اے محبوب!۔۔۔ واپَس آ جاؤ، کہ تمہارے غم کے باعث مَیں بہت زیادہ دردمَند ہوں!۔۔۔ میں تمہارے غم کے باعث اپنے صبر کا پیراہن چاک کر چُکا ہوں!۔۔۔ مَیں تمہارے غم کے باعث خاک و خُون کے درمِیان گِرا پڑا ہُوا ہوں!۔۔۔ قِصّہ تو بِسیار طویل ہے لیکن مُختَصَراً کہوں تو مَیں تمہارے غم کے باعث ہلاک ہو گیا ہوں!۔۔۔
واپَس آ‌جاؤ!۔۔۔

(مُتَرجِم: حسّان خان)
 

محمد وارث

لائبریرین
محوِ زنجیرِ نَفَس بُودن دلیلِ ہوش نیست
ہر کہ می بینی بقیدِ زندگی دیوانہ است


ابوالمعانی میرزا عبدالقادر بیدل

سانسوں کی زنجیر سے بندھا ہونا، ہوشمند ہونے کی دلیل نہیں ہے، جسے بھی تُو زندگی کی قید میں (زندہ) دیکھتا ہے سمجھو کہ وہ دیوانہ ہے (کہ قید میں اور زنجیر سے بندھا ہونا دیوانے کی نشانیاں ہیں، ہوشمند کی نہیں)۔
 

منہاج علی

محفلین
محوِ زنجیرِ نَفَس بُودن دلیلِ ہوش نیست
ہر کہ می بینی بقیدِ زندگی دیوانہ است


ابوالمعانی میرزا عبدالقادر بیدل

سانسوں کی زنجیر سے بندھا ہونا، ہوشمند ہونے کی دلیل نہیں ہے، جسے بھی تُو زندگی کی قید میں (زندہ) دیکھتا ہے سمجھو کہ وہ دیوانہ ہے (کہ قید میں اور زنجیر سے بندھا ہونا دیوانے کی نشانیاں ہیں، ہوشمند کی نہیں)۔
کیا کہنا۔
 
Top