پای بر چرخ نهد هر که ز سر می گذرد
رشته چون بی گره افتد ز گهر می گذرد
جگر شیر نداری سفر عشق مکن
سبزه تیغ درین ره ز کمر می گذرد
در بیابان فنا قافله شوق من است
کاروانی که غبارش ز خبر می گذرد
دل دشمن به تهیدستی من می سوزد
برق ازین مزرعه با دیده تر می گذرد
گرمی لاله رخان قابل دل بستن نیست
که به یک چشم زدن همچو شرر می گذرد
در چنین فصل که نم در قدح شبنم نیست
خار دیوار ترا آب ز سر می گذرد
غنچه زنده دلی در دل شب می خندد
فیض، آبی است که از جوی سحر می گذرد
عارفان از سخن سرد پریشان نشوند
عمر گل در قدم باد سحر می گذرد
نسبت دامن پاک تو به گل محض خطاست
که سخن در صدف پاک گهر می گذرد
چون صدف مهر خموشی نزند بر لب خویش؟
سخن صائب پاکیزه گهر می گذرد

(صائب تبریزی)
جو شخص بھی جان سے جاتا ہے آسمان پر قدم رکھتا ہے۔ جب رشتہ بے گرہ ہو جائے تو گہر سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
اگر شیر کا جگر نہیں رکھتے تو عشق کا سفر مت کرو کہ اس راہ میں سبزۂ تیغ کمر سے گزرتا ہے۔(سبزہ زیادہ ہونا غالباً باعثِ دشواری ہے)
فنا کے صحرا میں ہمارا قافلۂ شوق وہ کارواں ہے کہ جس کے غبار کی بھی کوئی خبر پائی نہیں جاتی(غبار بھی لاپتا ہو جاتا ہے)۔
دشمن کا دل میری غربت پر جلتا ہے، اس(میرے) مزرعہ سے برق بھی بھیگی آنکھیں لے کر گزرتی ہے۔(حسنِ تعلیل نے شعر کو بہت بلند کر دیا ہے)
لالہ رخوں کی گرمی کے باعث ان پر دل نہیں ہارنا چاہیے کہ وہ آنکھ کے ایک بار پھڑکنے میں ہی شرر کی طرح ختم ہو جاتی ہے۔
ایسے باغ میں کہ جہاں شبنم کی صراحی میں نمی نہیں، تیری دیوار کے کانٹے کا پانی سر سے گزرتا ہے۔
زندہ دلی کا غنچہ شب کے دل میں چٹکتا ہے، فیص وہ آب ہے کہ جو صبح کی ندی سے گزرتا ہے۔
عارف سرد باتوں سے پریشاں نہیں ہوتے کہ گل کی عمر بادِ سحر کے قدموں میں گزرتی ہے۔
تیرے پاک دامن کے ساتھ گل کی نسبت محض ایک خطا ہے کہ سخن گھر کی پاک صدف میں سے گزرتا ہے۔
صدف کیوں نہ مہرِ خموشی اپنے لب پر لگا لے کہ صائبِ پاکیزہ گہر کا سخن گزر رہا ہے۔(حسنِ تعلیل)

(اغلاط کا احتمال موجود ہے)
 
آخری تدوین:

شفاعت شاہ

محفلین
جو شخص بھی جان سے جاتا ہے آسمان پر قدم رکھتا ہے۔ جب رشتہ بے گرہ ہو جائے تو گہر سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
اگر شیر کا جگر نہیں رکھتے تو عشق کا سفر مت کرو کہ اس راہ میں سبزۂ تیغ کمر سے گزرتا ہے۔(سبزہ زیادہ ہونا غالباً باعثِ دشواری ہے)
فنا کے صحرا میں ہمارا قافلۂ شوق وہ کارواں ہے کہ جس کے غبار کی بھی کوئی خبر پائی نہیں جاتی(غبار بھی لاپتا ہو جاتا ہے)۔
دشمن کا دل میری غربت پر جلتا ہے، اس(میرے) مزرعہ سے برق بھی بھیگی آنکھیں لے کر گزرتی ہے۔(حسنِ تعلیل نے شعر کو بہت بلند کر دیا ہے)
لالہ رخوں کی گرمی کے باعث ان پر دل نہیں ہارنا چاہیے کہ وہ آنکھ کے ایک بار پھڑکنے میں ہی شرر کی طرح ختم ہو جاتی ہے۔
ایسے باغ میں کہ جہاں شبنم کی صراحی میں نمی نہیں، تیری دیوار کے کانٹے کا پانی سر سے گزرتا ہے۔
زندہ دلی کا غنچہ شب کے دل میں چٹکتا ہے، فیص وہ آب ہے کہ جو صبح کی ندی سے گزرتا ہے۔
عارف سرد باتوں سے پریشاں نہیں ہوتے کہ گل کی عمر بادِ سحر کے قدموں میں گزرتی ہے۔
تیرے پاک دامن کے ساتھ گل کی نسبت محض ایک خطا ہے کہ سخن گھر کی پاک صدف میں سے گزرتا ہے۔
صدف کیوں نہ مہرِ خموشی اپنے لب پر لگا لے کہ صائبِ پاکیزہ گہر کا سخن گزر رہا ہے۔(حسنِ تعلیل)

(اغلاط کا احتمال موجود ہے)
واہ واہ محمد ریحان قریشی صاحب۔ جیسے خوبصورت اشعار ہیں، ویسا ہی خوبصورت ترجمہ۔ بے حد شکریہ۔
 

حسان خان

لائبریرین
تو چشمهٔ حیاتی و ما ظُلمتِ فنا
از ما هوایِ وصلِ تو امری‌ست بس عجب!

(محمد فضولی بغدادی)
تم چشمۂ حیات ہو اور ہم ظُلمتِ فنا۔۔۔ [لہٰذا] ہماری جانب سے تمہارے وصل کی آرزو ایک بِسیار عجیب امر ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
'راجِیو چکرَوَرتی' کی دو فارسی ابیات:

چارهٔ درد کجا، عافیتِ قلب کجاست؟
حیف، صد حیف -- که بر رُویِ زمین نیست حکیم!

(راجیو چکرورتی)
چارۂ درد کہاں ہے؟ [اور] عافیتِ قلب کہاں ہے؟۔۔۔ صد حیف، کہ رُوئے زمین پر [کوئی] طبیب نہیں ہے [جو چارہ گری کر سکے]!

دولتِ فقر در آن کوچهٔ جانان به من است

خوش‌تر از عِشرتِ گنجینهٔ مال و زر و سیم!
(راجیو چکرورتی)
اُس کوچۂ جاناں میں فقیری کی دولت میرے نزدیک گنجینۂ مال و زر و سِیم کی عِشرت سے خوب تر ہے!
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
اشعارِ آب‌دارم تا شد مُحیطِ عالَم
انداختند در آب یاران سفینه‌ها را

(غنی کشمیری)
میرے اشعارِ آب دار جس وقت عالَم پر مُحیط ہو گئے (یعنی عالَم کو اِحاطے میں لے لیا)، یاروں نے آب میں سفینے ڈال دیے۔
× 'مُحیط' اُقیانوس کو بھی کہتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
چون برآرد دست چرخ از آستینِ انقلاب
کاسهٔ دریوزه سازد چینیِ فغفُور را

(غنی کشمیری)
جب فلک آستینِ انقلاب سے [اپنا] دست بیرون نکالتا ہے تو پادشاہِ چین کے چینی [سے بنے برتن] کو کاسۂ دریوزہ گری بنا دیتا ہے۔
 
فارسی سرمایه ام و فارسی است ارثِ من
گلشنِ فارس را بویم، بدان فرخنده ام
(جاوید اقبال قزلباش)

فارسی میرا سرمایہ ہے اور فارسی میری میراث ہے. میں گلشنِ فارس کو سونگھتا ہوں، اسی پر خوش وقت ہوں.

*شاعر کا تعلق پاکستان سے ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
بہ یک دو شیوہ ستم، دل نمی شوَد خرسند
بہ مرگِ من کہ بہ سامانِ روزگار بیا


مرزا غالب دہلوی

میرا دل تیرے ایک دو اندازِ ستم سے مطمئن اور راضی نہیں ہوتا، تجھے میری موت کی قسم، سارے زمانے کے ظلم و ستم کے سامان لے کر آ جا۔
 

حسان خان

لائبریرین
اگر شد کُشته در عشقش نعیمی
چه باشد عاشقان را این شِعار است

(فضل‌الله نعیمی)
اگر 'نعیمی' اُس کے عشق میں قتل ہو گیا تو کیا ہوا؟ کہ یہ عاشقوں کا شِعار ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
سرِ من ز ناتوانی، شدہ خاکِ آستانے
بہ تو زاہدا مبارک، سفرِ حجاز کردن


میرزا محمد حسن قتیل لاہوری

میرا سر تو ناتوانی کی وجہ سے کسی کے آستانے کی خاک ہو چکا ہے، اے زاہد، حجاز کا سفر کرنا تجھے مبارک ہو۔
 

یاز

محفلین
نازکاں را سفر از عشق حرامست حرام
کہ بہرگام دریں رہ خطرے نیست کہ نیست

(حافظ شیرازی)
نازکوں کے لئے عشق کا سفر یقیناَ حرام ہے۔ کہ ایسا کوئی خطرہ نہیں ہے کہ جو اس رہ میں نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
نازکاں را سفر از عشق حرامست حرام
کہ بہرگام دریں رہ خطرے نیست کہ نیست

(حافظ شیرازی)
نازکوں کے لئے عشق کا سفر یقیناَ حرام ہے۔ کہ ایسا کوئی خطرہ نہیں ہے کہ جو اس رہ میں نہیں ہے۔
یہ حافظ شیرازی کی بیت نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
شیر در بادیهٔ عشقِ تو رُوباه شود
آه از این راه که در وَی خطری نیست که نیست

(حافظ شیرازی)
شیر [بھی] تمہارے عشق کے صحرا میں رُوباہ ہو جاتا ہے۔۔۔ اِس راہ سے فریاد! کہ ایسا کوئی خطرہ نہیں ہے کہ جو اِس [راہ] میں نہیں ہے۔ (یعنی اِس راہ میں تمام خطرے موجود ہیں۔)
× رُوباہ = لومڑی
 

محمد وارث

لائبریرین
در جناں بینی رُخِ جاناں بدیں چشمِ حریص
ایں خیالِ خام اے زاہد بوَد نقشے بر آب


شیخ شرف الدین پانی پتی المعروف بُوعلی قلندر

جنت میں تُو رُخِ جاناں کو اپنی انہی لالچی آنکھوں سے دیکھ پائے گا، اے زاہد، یہ محض تیری خام خیالی ہے جو کہ ایسے ہی ہے جیسے پانی پر کوئی نقش۔
 

حسان خان

لائبریرین
شهریارا تو به شمشیرِ قلم در همه آفاق
به خدا مُلکِ دِلی نیست که تسخیر نکردی

(شهریار تبریزی)
اے شہریار! خدا کی قسم! تمام آفاق میں کوئی مُلکِ دل نہیں ہے کہ جس کو تم نے شمشیرِ قلم سے تسخیر نہ کر لیا ہو۔
 

حسان خان

لائبریرین
وصفِ آذربایجان توصیفِ رُویِ دل‌بر است
خاکِ پاکش تا ابد بر دیدهٔ ما توتیاست

(شمس خلخالی)
آذربائجان کی توصیف [گویا] چہرۂ دلبر کی توصیف ہے۔۔۔ اُس کی خاکِ پاک تا ابد ہماری چشم کے لیے سُرمہ ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
اگرچہ دیارِ آذربائجان کی زبانِ اوّل تُرکی ہے، لیکن فارسی شعر و ادبیات کی ہزار سالہ تاریخ میں دیارِ آذربائجان ایک نہایت بالا و والا مقام رکھتا ہے۔ فلِہٰذا، دُکتر احمد احمدی آذربائجان کے برائے کہے گئے قصیدے کی ایک بیت میں کہتے ہیں:
فارسی همواره رنگ و رُوی و رونق از تو داشت
حُجّتم خاقانی و صائب، نظامی، شهریار

(احمد احمدی)
[اے آذربائجان!] زبانِ فارسی نے ہمیشہ تم سے رنگ و زیبائی و رونق پائی۔۔۔ خاقانی شِروانی، صائب تبریزی، نظامی گنجوی، اور شہریار تبریزی [اِس دعوے پر] میری دلیل ہیں۔

× مذکورہ شاعروں میں سے صائب تبریزی اور شہریار تبریزی کی مادری زبان تُرکی تھی۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
بہ اُمیدِ نظرے در گذرَت خاک شدیم
از تو بر ما نظرے و گذرے می باید


ہلالی چغتائی

ایک نگاہ کی اُمید میں ہم تیرہ رہ گزر میں خاک ہو گئے، اب تو ہمیں دیکھ لے، اب تو ہماری خاک پر تیرا گزر ہونا چاہیے۔
 

حسان خان

لائبریرین
میان اهلِ سخن امتیازِ من صائب
همین بس است که با طرز آشنا شده‌ام

(صائب تبریزی)
اے صائب! اہلِ سُخن کے درمیان میرا یہی امتیاز کافی ہے کہ میں [شاعری کی] طرزِ [نَو] سے آشنا ہو گیا ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
تو گرمِ سُخن گفتن و از جامِ نگاهت
من مست چُنانم که شِنُفتن نتوانم

(محمدرِضا شفیعی کدکَنی)
تم سُخن کہنے میں مشغول ہو، [جبکہ] میں تمہارے جامِ نگاہ سے اِس طرح مست ہوں کہ سُن نہیں سکتا۔
 
Top