سید عاطف علی

لائبریرین
ہر کہ را بیماری چشم تو در بستر فکند
ہر پرستاری کہ آمد بر سرش بیمار شد
صائب تبریزی
تیری چشم کے سب بیمارو ں کوجوبستر پر پڑے ہیں ۔ جو بھی پوچھنے آیا وہ خودہی بیمار پڑگیا۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
مباد فتنہ ا ی خوابیده را کنی بیدار
بہ احتیاط بر آن چشم خوابناک نگر
استاذ صائب تبریزی
کہیں وہ خوابیدہ فتنہ جاگ نہ اٹھے۔لہذا ان خواب ناک آنکھوں کو بہت احتیاط سے دیکھو۔
 

آوازِ دوست

محفلین
وارث بھائی فارسی سے ہمیں بچپن سے ایک خاص تعلقِ قلبی رہا ہے جب بھی کوئی بات مشکل ہو جاتی ہم بے اختیار کہہ اُٹھتے "آپ کیا فارسی بول رہے ہیں کچھ سمجھ نہیں آئی" اوردوسرا بندہ فوراً ہماری پریشانی سمجھ جاتا۔ خیر ایک شعریاد آیاسو احباب کی نذر ہے:
گرجوانی توبہ کردن شیوہء پیغمبری۔۔۔۔وقتِ پیری گرگ ظالم میشود۔
ترجمہ اس کا یوں ہے کہ دورِ جوانی کی پرہیزگاری اورتوبہ پیغمبرانہ شان رکھتی ہے ورنہ جب بڑھاپالاچار کردیتا ہے تو ظالم بھیڑیا بھی امن کے گیت گاتا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
وارث بھائی فارسی سے ہمیں بچپن سے ایک خاص تعلقِ قلبی رہا ہے جب بھی کوئی بات مشکل ہو جاتی ہم بے اختیار کہہ اُٹھتے "آپ کیا فارسی بول رہے ہیں کچھ سمجھ نہیں آئی" اوردوسرا بندہ فوراً ہماری پریشانی سمجھ جاتا۔ خیر ایک شعریاد آیاسو احباب کی نذر ہے:
گرجوانی توبہ کردن شیوہء پیغمبری۔۔۔۔وقتِ پیری گرگ ظالم میشود۔
ترجمہ اس کا یوں ہے کہ دورِ جوانی کی پرہیزگاری اورتوبہ پیغمبرانہ شان رکھتی ہے ورنہ جب بڑھاپالاچار کردیتا ہے تو ظالم بھیڑیا بھی امن کے گیت گاتا ہے۔
آواز دوست صاحب یہ مکمل شعر اس طرح ہے ۔
درجوانی توبہ کردن شیوہء پیغممبریست
وقت پیری گرگِ ظالم می شود پرہیزگار
 

حسان خان

لائبریرین
نه ز کم ظرفیست گر رازم تراوید از درون
خس برون افتد چو آید قلزم اندر اضطراب
(قاآنی شیرازی)

اگر (میرے) اندر سے میرا راز باہر ٹپک پڑا ہے تو یہ کم ظرفی کی وجہ سے نہیں ہے؛ جب بھی سمندر اضطراب میں آتا ہے تو تنکا باہر گر جاتا ہے۔

(رباعی)
آن کس که بدم گفت بدی سیرتِ اوست
وان کس که مرا گفت نکو خود نیکوست
حالِ متکلم از کلامش پیداست
از کوزه همان برون تراود که در اوست
(شیخ بهایی)

جس شخص نے مجھے برا کہا، بدی اُس کی (اپنی) سیرت ہے؛ اور جس شخص نے مجھے اچھا کہا، وہ خود اچھا ہے؛ بولنے والا کا حال اُس کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے؛ کوزے سے وہی کچھ باہر ٹپکتا ہے جو اُس کے اندر ہوتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"ساغری ایک بغلول شاعر تھا۔ اُسے آتا جاتا تو کچھ بھی نہ تھا۔ لیکن اپنے آپ کو خلّاقِ معانی سمجھتا تھا۔ مولانا [جامی] کی خدمت میں بہت رہا کرتا تھا۔ ایک دن اُس نے مولانا سے کہا کہ جب میں کوئی اچھا شعر کہتا ہوں، یا عمدہ مضمون پیدا کرتا ہوں تو دوسرے شعراء فوراً اُس کو چرا لیتے ہیں۔ مولانا کو اُس کے جہلِ مرکّب پر ہنسی آئی۔ اور یہ دو شعر لکھے:
ساغری می‌گفت دزدانِ معانی برده‌اند
هر کجا در شعرِ من یک معنیِ خوش دیده‌اند
دیدم اکثر شعرهایش را، یکی معنی نداشت
راست می‌گفت او که معنی‌هاش را دزدیده‌اند

(یعنی ساغری کہتا تھا کہ شعراء جہاں کہیں میرے اشعار میں کوئی اچھا معنی دیکھتے ہیں تو چرا لیتے ہیں۔ میں نے اُس کے اکثر اشعار دیکھے۔ حقیقت میں اُن میں کوئی معنی نہیں تھا۔ وہ بیچارہ سچ کہتا تھا کہ لوگ اُس کے معانی چرا لیتے ہیں۔)
یہ قطعہ ہرات کی گلی گلی میں مشہور ہو گیا۔ ساغری مولانا کے پاس شکایت لایا کہ یہ آپ نے کیا لکھ دیا۔ وہ قطعہ بچے بچے کی زبان پر ہے۔ جدھر سے گذرتا ہوں لوگ مجھ کو سناتے ہیں اور ہنستے ہیں۔ مولانا مسکرائے اور فرمایا کہ بھائی میں نے تو 'شاعری می‌گفت' [ایک شاعر کہتا تھا] لکھا تھا۔ لوگوں نے تمہارا مذاق اڑانے کی غرض سے اُس کو ساغری کر لیا ہو گا۔ اب میں کیا کروں۔"

(اسلم جیراج پوری کی کتاب 'حیاتِ جامی' سے مُقتبَس)
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
حق اگر سوزے ندارد حکمت است
شعر می گردَد چو سوز از دل گرفت


علامہ اقبال

سچی بات میں اگر سوز نہیں ہے تو وہ فقط عقل و حکمت کی ایک بات ہے، لیکن وہی بات جب دل سے سوز حاصل کر لیتی ہے تو ایک سچا شعر بن جاتی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
صبحدم یا رب کواکب بود ریزان از سپهر
یا که بر دردِ دلِ من چشمِ گردون می‌گریست
(عبدالرحمٰن جامی)

اے رب! صبح کے وقت کیا آسمان سے ستارے ٹوٹ کر گر رہے تھے یا کہ میرے دل کے درد پر آسمان کی آنکھ رو رہی تھی؟

زان کس که مرا دوخت گریبان چه گشاید
چون دوختنِ این جگرِ چاک ندانست
(عبدالرحمٰن جامی)

(مجھے) اُس شخص سے، کہ جس نے میرا گریبان سیا ہے، کیا آسودگی حاصل ہو سکتی ہے کہ جب وہ اِس جگرِ چاک ہی کو سینا نہیں جانتا تھا؟
 

محمد وارث

لائبریرین
گر بادِ فتنہ ہر دو جہاں را بہم زنَد
ما و چراغِ چشم و رہِ انتظارِ دوست


حافظ شیرازی

اگر فتنے کی ہوا دونوں جہانوں کو درہم برہم بھی کر دے تو پھر بھی میں ہونگا اور میری آنکھوں کا چراغ ہوگا اور دوست کے انتظار والی راہ ہوگی۔
 

حسان خان

لائبریرین
چون کنم قصدِ سخن نامِ تو آید بر زبان
چون کنم جانا که جز نامِ تو هیچم یاد نیست
(عبدالرحمٰن جامی)

میں جب بھی گفتگو کا ارادہ کرتا ہوں تو تمہارا نام زبان پر آتا ہے۔ اے جان، کیا کروں کہ مجھے تمہارے نام کے سوا کچھ یاد نہیں ہے۔

یک خنده کردی و دلِ ما شد از آنِ تو
باری دگر بخند که جان هم برای توست
(عبدالرحمٰن جامی)

تم ایک بار ہنسے اور ہمارا دل تمہاری ملکیت میں چلا گیا۔ ایک بار پھر ہنسو کہ (ہماری) جان بھی تمہارے ہی لیے ہے۔

دل چون توانم از تو بریدن که در ازل
آب و گِلم سرشته به مهر و وفای توست
(عبدالرحمٰن جامی)

میں (اپنا) دل کیسے تم سے موڑ سکتا ہوں کہ روزِ ازل میری مٹی تمہاری مہر و وفا ہی سے گوندھی گئی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
آن را که دید شکلِ خوشت بامدادِ عید
پروای عید و ذوقِ تماشای او کجاست

(عبدالرحمٰن جامی)
جس شخص نے عید کی صبح تمہاری شکلِ خوش دیکھ لی ہو اُسے عید کی پروا اور اُس کے تماشے کا ذوق کب ہو سکتا ہے؟

پیکانِ آبدار که آید ز دستِ دوست
بر عاشقانِ سوخته بارانِ رحمت است

(عبدالرحمٰن جامی)
دوست کے ہاتھوں سے جو آب دار (یعنی تیز دھار والے) تیر چلے آتے ہیں وہ (عشق کی آگ میں) جل چکے عاشقوں پر بارانِ رحمت کی طرح برستے ہیں۔ [یعنی عاشقوں کے لیے یار کے تیر بارانِ رحمت کی طرح ہیں۔]
 

حسان خان

لائبریرین
نقدِ جان شد یک درم وابستگانِ سیم را
نیست یک جو گنجِ قارون گر کند آزاده خرج

(امیر علی‌شیر نوایی)
سیم و زر کے بندوں کے لیے ایک درم ہی جان جتنا قیمتی ہو جاتا ہے، لیکن جب کوئی آزاد، نجیب اور سخی شخص خرچ کرنے پر آتا ہے تو اُس کے سامنے قارون کا خزانہ بھی ایک جو کے دانے جتنی وقعت نہیں رکھتا۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
ز غارتِ چمَنَت بر بہار مِنّت ہاست
کہ گُل بدستِ تو از شاخ تازہ تر مانَد


طالب آملی

چمن میں تیرا پھول توڑنا دراصل موسمِ بہار پر احسان ہے کیونکہ تیرے ہاتھ میں پھول شاخ سے بھی زیادہ تر و تازہ رہتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
مگو کز اشک در کوی وفا روید نهالِ وصل
که گر بودی چنین، از دیدهٔ گریانِ من بودی

(امیر علی‌شیر نوایی)
یہ مت کہو کہ آنسوؤں سے کوئے وفا میں وصل کا پودا اُگتا ہے؛ کیونکہ اگر ایسا کچھ ہونا ہوتا تو میری گریہ کر رہی آنکھ سے ہو چکا ہوتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
ای شبِ غم چند در هجرانِ یارم می‌کُشی
زنده می‌دارم تو را، بهرِ چه زارم می‌کُشی

(امیر علی‌شیر نوایی)
اے شبِ غم! کب تک مجھے یار کے ہجر میں قتل کرتی رہو گی؟ میں تو تمہیں زندہ رکھتا ہوں، پھر تم کس لیے مجھے بہ عجز و زاری قتل کیے جاتی ہو؟
[شب زندہ داشتن = شب بیداری، رات بھر جاگتے رہنا]
اس شعر کا اصل لطف فارسی محاورے ہی کے ہمراہ ہے۔ اردو ترجمے سے شعر کا مفہوم تو بیان ہو گیا ہے، لیکن اس کے حُسن میں کمی واقع ہو گئی ہے۔

به آبِ روشنِ مَی شُوی تا صفا یابد
صحیفهٔ دلت ار تیره گردد از المی

(امیر علی‌شیر نوایی)
اگر تمہارے دل کا صحیفہ کسی غم سے مکدّر ہو جائے تو اُسے شراب کے روشن پانی سے دھو ڈالنا تاکہ وہ (دوبارہ) پاک ہو جائے۔
[مُکدّر = مَیلا]

چه دامِ زلف به قصدم نهی چو هست لبت
شکر بس است ز بهرِ گرفتنِ مگسی

(امیر علی‌شیر نوایی)
جب تمہارے لب موجود ہیں تو پھر میرے شکار کے لیے زلفوں کا جال کیوں بچھا رہی ہو؟ ایک مکھی کو پکڑنے کے لیے شَکَر ہی کافی ہے۔

دلم به دستِ تو مرغی‌ست در کفِ آن طفل
که نی کُشد، نه گذارد، نه سازدش قفسی

(امیر علی‌شیر نوایی)
تمہارے ہاتھوں میں اسیر میرا دل اُس بچّے کے ہاتھوں میں پھنسے پرندے کی مانند ہے جس کو نہ وہ بچہ مارتا ہے، نہ رہا کرتا ہے اور نہ اُس کے لیے کوئی قفس ہی بناتا ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
رنگِ شکستہ را بہ زباں احتیاج نیست
صائب عبث چہ دردِ خود اظہار می کُنی


صائب تبریزی

اُڑے ہوئے رنگ کو زبان سے اظہار کی ضرورت نہیں ہے، صائب تُو کیوں عبث ہی اپنے درد کا اظہار کر رہا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
آیدم بهرِ زمین‌بوسِ سگانت سر فرو
لیک آن سر هرگزم ناید به تاجِ زر فرو

(امیر علی‌شیر نوایی)
میرا سر تمہارے کتوں کی زمیں بوسی کے لیے تو نیچے جھک جاتا ہے لیکن میرا یہ سر ہرگز کسی سونے کے تاج کی تعظیم میں نیچے نہیں جھکتا۔

روشنی نفتاده در قصرت ز روزن بلکه مهر
آمده بهرِ تماشایت ز بام و در فرو

(امیر علی‌شیر نوایی)
تمہارے محل میں روزن سے یہ روشنی داخل نہیں ہوئی ہے بلکہ یہ تو آفتاب ہے جو تمہارے دیدار کے لیے بام و در کے راستے نیچے آیا ہے۔

ز سوزِ شعلهٔ هجرِ تو مُردم، ترکِ هجران کن
خلیل‌آسا در آ وین آتشم یکسر گلستان کن

(امیر علی‌شیر نوایی)
میں تمہارے ہجر کے شعلے کے سوز کے ہاتھوں مر گیا ہوں، (لہٰذا اب) ہجر کو ترک کر دو؛ حضرتِ خلیل کی طرح اندر آؤ اور اِس میری آگ کو پوری طرح گلستاں کر دو۔

نمی‌گویم که با من لطف کن یا جور کن یا ناز
هر آنچت خاطرِ نازک بدان مایل بوَد، آن کن

(امیر علی‌شیر نوایی)
میں (تم سے) یہ نہیں کہتا کہ مجھ پر لطف کرو، ظلم کرو یا ناز کرو۔۔۔ (بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ) تمہاری خاطرِ نازک جس چیز پر بھی مائل ہو، (تم) وہی کرو۔

مرا از آتشِ نمرود و گلزارِ ارم کم گو
بده آن جامِ آتش‌گون که عالم گرددم گلشن

(امیر علی‌شیر نوایی)
مجھ سے آتشِ نمرود اور گلزارِ ارم کی باتیں کم کرو۔۔۔ (اور اس کے بجائے) مجھے وہ جامِ آتش گوں تھماؤ تاکہ دنیا میرے لیے گلشن بن جائے۔
[آتش گوں = آگ کے رنگ جیسا]
 
آخری تدوین:

احمد بلال

محفلین
برآستانِ تو غوغائے عاشقاں چہ عجب
کہ ہر کجا شکرستاں بود مگس باشد (حافظ شیرازی)

تیرے آستان پر عاشقوں کا شور و غل میں کیا عجب ہے کیوں کہ ہر وہ جگہ جو مٹھاس رکھتی ہے وہاں شہد کی مکھیاں ہوتی ہیں
 

حسان خان

لائبریرین
چرخ را جامِ نگو‌ن دان کز میِ عشرت تهی‌ست
باده از جامِ نگون جستن نشانِ ابلهی‌ست

(عبدالرحمٰن جامی)
آسمان کو معکوس جام سمجھو کیونکہ وہ مئے عشرت سے خالی ہے؛ (اور ویسے بھی) معکوس جام میں شراب تلاش کرنا حماقت کی نشانی ہے۔
[معکوس = الٹا، اوندھا، پلٹا ہوا]

گر بوَد در خاک پیشِ رویم از کوی تو خشت
به که باشد روزنی بر جای آن خشت از بهشت

(عبدالرحمٰن جامی)
اگر (میری) تربت میں میرے چہرے کے سامنے تمہارے کوچے کی کوئی اینٹ ہی ہو تو وہ اس بات سے بہتر ہے کہ اُس اینٹ کی جگہ پر جنت کی جانب کھلنے والا کوئی دریچہ ہو۔
 
Top