کراچی میں آٹھ سو سالہ عالم دین جن

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

arifkarim

معطل
یہ میں نے خواجہ شمس الدین عظیمی کی کتاب ’’ٹیلی پیتھی سیکھئے‘‘ میں پڑھا تھا ۔۔۔ لیکن کل رات امام صاحب نے قرآن پاک کی جو تفسیر بیان کی، اس میں فرمایا کہ قوم ثمود ایک ایسی قوم گزری ہے جو ناخنوں سے پہاڑوں کو تراش اور کاٹ کر گھربنا لیا کرتے تھے ۔۔۔ اگر قوم ثمود اتنی طاقتور تھی تو عین ممکن ہے کہ اہرام مصر تعمیر کرنے والی قوم بنی اسرائیل، جس پر سب سے زیادہ پیغمبر اترے تھے، اس وقت ایسی ہی طاقتور ہوا کرتی ہو کہ اسے کشش ثقل ختم کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی ہو۔۔۔ عین ممکن ہے ۔۔۔
آجکل کی بنی اسرائیل تو اپنے ناخنوں سے کچھ خاص کام نہیں لے سکتی۔ کیا پچھلے 4000 سال میں اسقدر انقلابی جینیاتی تبدیلیاں رونما ہو گئی ہیں؟ :alien:
 
اصل بات یہ ہے کہ جنات جیسی غیر مرئی مخلوق کا ایسا کوئی وجود نہیں جو ہم بچپن سے عینک والا جن جیسے فضول ڈراموں میں تصور کرتے آئے ہیں۔
یعنی آپ سیدھا سیدھا قرآن کی آیات کے ھی منکر ہو رہے ہیں پھر ۔۔۔اللہ ھدایت عطا فرماے۔۔آمین
 

arifkarim

معطل
یعنی آپ سیدھا سیدھا قرآن کی آیات کے ھی منکر ہو رہے ہیں پھر ۔۔۔ اللہ ھدایت عطا فرماے۔۔آمین
میں وحی قرآنی کا منکر نہیں، ان آیات کے غیرفطری، حقیقت سے کوسوں دور نکالے جانے والے مطالب اور تصورات کا منکر ہوں۔ ہم اپنے بچوں کو جو جنات کی تصویر پیش کرتے ہیں اسمیں کس قدر سچائی ہے کیا اسپر غیرجانبدارانہ اور آزادانہ تحقیق کی ہے کسی عالم دین نے؟ اگر ہم 1400 سال بعد بھی اس جدید ٹیکنالوجی کے دور سے گزرنے کیساتھ بھی ان جنات جیسی غیر مرئی مخلوقات کی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں تو پھر خرابی ہمارے تصورات میں ہے نہ کہ جنات کے وجود میں۔
جیسے ہمارے ہاں پسماندہ علاقوں میں یہ تصور عام ہے کہ ہر عجیب و غریب ذہنی بیماری کو جنات کی شکل دے کر مشہور کر دیا جاتا ہے کہ جنات کی کاروائی ہے یا کالا علم کر دیا گیا ہے وغیرہ۔ اگر یہی بیماری کسی غیر اسلامی ملک میں کسی انسان کو ہو تو وہ اسے ذہنی امراض کے معالج کے پاس لیجاتے ہیں جو کافی حد تک اسکا جدید علاج کر سکتے ہیں۔ بغیر کسی بیماری کی تشخیص کئے ہر ناقابل بیان ذہنی مرض کو جنات کا کارنامہ کہنا جہالت کی نشانی ہے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
آجکل کی بنی اسرائیل تو اپنے ناخنوں سے کچھ خاص کام نہیں لے سکتی۔ کیا پچھلے 4000 سال میں اسقدر انقلابی جینیاتی تبدیلیاں رونما ہو گئی ہیں؟ :alien:
کچھ باتیں یقینا تحقیق طلب ہیں اور کوئی عالم دین ہی اس کا جواب دے سکتا ہے۔۔۔
میں وحی قرآنی کا منکر نہیں، ان آیات کے غیرفطری، حقیقت سے کوسوں دور نکالے جانے والے مطالب اور تصورات کا منکر ہوں۔ ہم اپنے بچوں کو جو جنات کی تصویر پیش کرتے ہیں اسمیں کس قدر سچائی ہے کیا اسپر غیرجانبدارانہ اور آزادانہ تحقیق کی ہے کسی عالم دین نے؟ اگر ہم 1400 سال بعد بھی اس جدید ٹیکنالوجی کے دور سے گزرنے کیساتھ بھی ان جنات جیسی غیر مرئی مخلوقات کی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں تو پھر خرابی ہمارے تصورات میں ہے نہ کہ جنات کے وجود میں۔
جیسے ہمارے ہاں پسماندہ علاقوں میں یہ تصور عام ہے کہ ہر عجیب و غریب ذہنی بیماری کو جنات کی شکل دے کر مشہور کر دیا جاتا ہے کہ جنات کی کاروائی ہے یا کالا علم کر دیا گیا ہے وغیرہ۔ اگر یہی بیماری کسی غیر اسلامی ملک میں کسی انسان کو ہو تو وہ اسے ذہنی امراض کے معالج کے پاس لیجاتے ہیں جو کافی حد تک اسکا جدید علاج کر سکتے ہیں۔ بغیر کسی بیماری کی تشخیص کئے ہر ناقابل بیان ذہنی مرض کو جنات کا کارنامہ کہنا جہالت کی نشانی ہے۔
آپ کے تاثرات ، جو آپ نے پیش کیے ہیں، ان سے محسوس کچھ ایسا ہوتا ہے کہ آپ وحی کے منکر نہ بھی ہوں تو اپنے طرز گفتگو کے حساب سے غیر محتاط ضرور ہیں۔ اب جو بات آپ نے لکھی ہے، وہ بہت حد تک معقول بھی ہے اور سمجھ میں بھی آتی ہے، تاہم اس میں بھی اختلافی باتیں بہت سی ہیں۔۔۔ آپ کا یہ کہنا کہ کوئی عالم دین غیر جانبدارانہ اور آزادانہ تحقیق جنات کے بارے میں کرے، انتہائی ناقابل عمل سی بات ہے۔۔۔ جہاں تک مادی چیزوں کا تعلق ہے تو اس پر سائنس بھی تحقیق کرسکتی ہے اور مجھ جیسا عام شخص بھی باآسانی بہت سی چیزوں کے بارے میں تحقیق کرکے کوئی نہ کوئی نتیجہ نکال سکتا ہے۔۔۔ لیکن جنات، فرشتے اور نظر نہ آنے والی مخلوقات پر تحقیق کی بھی جائے اور اس کانتیجہ بھی برآمد ہو تو اسے ماننے کے لیے ہر ایک شخص کو وہ تحقیق پہلے خود کرکے دیکھنا ہوگی۔۔۔ آپ کہتے ہیں خرابی ہمارے تصورات میں ہے کہ ہم جنات جیسی مخلوقات کی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔۔۔ یہ تصور کی نہیں، علم کی بات ہے اور یہ علم آپ کو سائنس نہیں دے سکتی۔۔ سائنس مادے سے شروع ہوتی اور اسی پر ختم ہوجاتی ہے۔ ۔غیر مرئی مخلوقات پر تحقیق کے لیے ایک دوسری قسم کے علم کی ضرورت ہے۔۔ ویسے تو سائنس کا مطلب بھی علم ہی ہے، لیکن اس پر مادیت پرستی کی چھاپ غالب ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں:
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ
لہٰذا ہم علم حاصل کرکے تنقید محض نہیں کرتے، بلکہ جو کچھ خدا اور اس کی کتاب کہتی ہے، اس پر یقین کرلیتے ہیں۔ہاں، یہ سمجھنا کہ خدا کی کتاب میں جو الفاظ بیان ہوئے ہیں، ان کا مطلب کیا ہے، اس کے لیے ہمیں علمائے دین کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔۔۔ وہ ہمیں یہی سمجھاتے ہیں کہ فرشتے، جنات اور غیبی مخلوقات جتنی بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں، وہ تحقیق کے دائرہ کار میں نہیں آتیں۔۔۔ اگر کبھی آئیں تو ہم بھی دیکھ کر یقین کر لیں گے۔ ہم تو ہیں ہی جاہل مطلق اور تحقیق سے آنکھیں چرانے والے قدامت پرست لوگ۔۔۔لیکن پہلے آپ یہ بتائیے کہ آپ نے اب تک کون سی ترقی کی ہے؟ کون سا ایسا غیر مرئی مخلوق کو جانچنے اور پرکھنے کا آلہ ایجاد کر لیا جسے ہم استعمال کرکے ان مخلوقات کا پتہ لگانے سے انکار کر رہے ہیں؟
ہر نئی چیز پہلے ناقابل قبول ہوا کرتی ہے، جیسے کچھ جاہلوں نے یہ ماننے سے ہی انکار کردیا تھا کہ چاند پر کوئی قدم رکھ سکتا ہے۔۔۔ وہ کہتے تھے یہ کفر ہے۔ لیکن جو حقیقت ہے وہ تو ماننی ہی پڑتی ہے۔۔ جب سورج نکلتا ہے تو سب کو علم ہوجاتا ہے کہ صبح ہوچکی ہے۔۔۔
رہی بات مرگی اور دوسرے امراض جو ظاہرا جنات کا اثر معلوم ہوتے ہیں جس کی وجہ سے جاہل لوگ گمراہ ہو کر مریض کو موت کے منہ میں دھکیل دیتے ہیں تو یہ تو ان لوگوں کی جہالت ہے۔۔۔ اب آپ اس کی وجہ سے یہ کہنا شروع کردیں کہ کوئی جن ہے ہی نہیں یا جن عالم دین نہیں ہوسکتا یا پھر اس کی عمر آٹھ سو سال نہیں ہوسکتی تو اس میں قصور تو آپ کا ہے۔۔۔ جو شخص آپ کو یہ جن کا قصہ سنا رہا ہے، اس سے ثبوت مانگیں گے تو کوئی آلہ تو ہے نہیں جس کی مدد سے آپ سچ اور جھوٹ کا پتہ چلا سکیں۔۔۔ پھر آپ کیا کریں گے؟ میرا خیال ہے آپ کوئی ایسا آلہ ایجاد کر نے کے بارے میں سوچیں گے جس سے یہ پتہ چلایاجاسکے، جب آپ ایسا کرلیں گے پھر ہم بھی سوچیں گے آپ کتنے با عمل مسلمان ہیں اور ہم کتنے بے عمل اور جاہل ہیں کہ ہر بات کا یقین کر لیتے ہیں۔ حالانکہ میں نے صرف Neutral رہنے کی بات کی تھی، جہاں تک مجھے یاد ہے۔۔۔ خواہ مخواہ ہر بات کو مان لینا بھی درست نہیں ہے لیکن خوامخواہ انکار بھی کیوں کیا جائے؟ انکار کی بھی کوئی ٹھوس وجہ ہونا ضروری ہے۔۔۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
یہ مضمون کیا کسی کوہ قاف کے جن نے لکھا ہے؟ :grin: میں ایک بار پھر کہوں گا، جو اس امت اخبار کا حال ہے وہی امت محمدیہ کا حال ہے۔
ایک اخبار کو یا ایک ادارے کو یا پھر ایک علاقے، شہر یا ملک کو خراب دیکھ کر امتِ محمدیہ کو اس طرح کہنا کسی مسلمان کا کام نہیں ہے معذرت کے ساتھ۔
امتِ محمدیہ پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اور یہ اخبار ایک شہر تک محدود ہے
آپ سے درخواست ہے آپ اس طرح کے الفاظ استعمال کر کے مسلمانوں کے دلوں کو تکلیف نا پہنچایا کریں
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ہاہاہا۔ ایسی ہی فرضی فضول کتابی باتوں پر "ایمان" لا کر ہمارا یہ حال ہوگیا ہے۔ بھئی اگر کشش ثقل ختم کی جا سکتی تو آج سیسہ پلائی دیواروں اور جدید اسٹیل کے بغیر بلند اور بالا عمارات نہ بنائی جاتیں!
بھائی آپ نہ جانے کس دنیا میں رہتے ہیں۔۔۔ ۔بالخصوص مسلمانوں اور بالعموم ساری دنیا کو ان ایجادات سے محروم رکھا جاتا ہے جن سے ایجاد کرنے والا ملک چاہتا ہے۔۔۔ آپ کے پاس علم نہیں۔۔۔ آپ نے سائنس نہیں پڑھی۔۔۔ آپ تاریخ پڑھ پڑھ کر بس اپنے ماضی کو یاد کرتے ہیں اور کہتے رہتے ہیں کہ آپ کے مسلمان سائنس دان تھے جنہوں نے سب کچھ کیا اور اب جو غیر ملکی کر رہے ہیں، وہ سب اسی کی دین ہے (یہ وہ باتیں ہیں جو امت مسلمہ سے منسوب کی جاتی ہیں کہ وہ یہ کہتے ہیں اور بلا شبہ وہ کہتے ہیں تو) ۔۔۔ بھائی، مانا کہ یہ سب انہی کی دین ہے۔۔۔ آپ نے سائنس کی بہت سی شاخیں جوموجود نہیں تھیں، بنائیں، آپ نے بڑے بڑے سائنس دان پیدا کیے۔۔۔ آپ نے ۔ریاضی دان عطا کیے سائنس کے علم کو جلا بخشنے کے لیے جنہوں نے ۔بڑے بڑے ریاضیاتی اصول بنائے ، لیکن وہ تو ماضی کی بات ہو گئی ہے نا۔۔۔ اب آپ کے سائنسدان کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟؟ صرف پڑھ رہے ہیں، پڑھا رہے ہیں یا اخبارات میں لکھتے ہیں۔۔ ایجادات نہیں کرتے۔۔۔ اگر کرتے بھی ہیں تو وہ انتہائی محدود پیمانے پر ہوتی ہیں۔۔۔۔ اب جو ممالک ایجادات کر رہے ہیں، وہ آپ کی نظر میں کافر ہیں لیکن آپ بھی تو ان کی نظر میں کافر سے زیادہ کچھ نہیں۔۔۔ دونوں مخالفین ہیں۔۔۔ تو کیا مخالفین ایک دوسرے کو فائدہ پہنچاتے ہیں؟ وہ تو نقصان ہی کرتے ہیں۔۔۔ لہٰذا میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایجادات بتائی نہیں جاتیں، چھپائی جاتی ہیں۔۔۔ آپ کیا سمجھتے ہیں جو ہم روز انٹرنیٹ پر اڑن طشتری کی ویڈیوز دیکھتے ہیں، جعلی ہیں؟ اس بات پر بھی کام ہوا ہے کہ کشش ثقل کیسے ختم کی جائے ۔۔۔ ظاہر ہے کشش ثقل ایک مادی قوت ہے جو زمین اور دیگر سیاروں میں پائی جاتی ہے۔۔۔ سورج میں پائی جاتی ہے۔۔۔ ستاروں اور بلیک ہولز میں ہوتی ہے۔۔۔ اگر یہ پیدا ہوتی ہے تو کوئی وجہ ہوگی جس کی بنیاد پر یہ پیدا ہوتی ہے۔۔۔ اس وجہ کو سمجھ کر اس کو قابو میں کرنا کیا مشکل ہے؟؟ ایک ایسا دور بھی تو تھا نا جس میں ہم کشش ثقل کو سمجھتے ہی نہیں تھے کہ یہ ہوتی کیا ہے۔۔۔ پھر ایک مغربی سائنس دان نے سیب کو گرتے ہوئے دیکھا تو اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا، تو سائنس کا کوئی نتیجہ حتمی نہیں ہوا کرتا میرے بھائی۔۔۔ اور سب نتائج ہمارے علم میں نہیں۔۔۔ ہم سے چھپایاجاتا ہے ۔۔۔ ہمیں جاہل رکھنے کی کوشش مغربی ممالک سے زیادہ ہمارے حکمرانوں نے کی ہے اور کر رہے ہیں۔۔۔ یہ ہمیں غلام ہی رکھنا چاہتے ہیں۔۔ اور یہ کوئی فضول، فرضی یا کتابی بات نہیں۔۔۔ ایک حقیقت ہے جسے روز روشن کی طرح ہر ایک پر آشکار ہونا چاہئے۔۔۔۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top