دل عندلیب سوسن و نرگس کو دے چکا
ہرجائی اس کو کرگئی آخر جفائے گل
دامن نہ چاک کر لے کہیں قیس، دیکھ کر
اے اہل ِ گلشن آج رفو ہو قبائے گل
بلبل کی خیر ! تحفۂ لیلیٰ کے شوق میں
خود قیس بن کے آیا ہے گلچیں ،برائے گل
واپس وہ اشک کردیے جن میں لہو نہ تھا
ہے عندلیب کے لیے شبنم عطا ئے گل
ہے نازِ رنگ...
دل عندلیب سوسن و نرگس کو دے چکا
ہرجائی اس کو کرگئی آخر جفائے گل
دامن نہ چاک کر لے کہیں قیس، دیکھ کر
اے اہل ِ گلشن آج رفو ہو قبائے گل
بلبل کی خیر ! تحفۂ لیلیٰ کے شوق میں
خود قیس بن کے آیا ہے گلچیں ،برائے گل
واپس وہ اشک کردیے جن میں لہو نہ تھا
ہے عندلیب کے...
فکرِ سیرابئ صحرا نے کیا اندھا اسے
ورنہ کیا نرگس کو شوقِ دیدِ رعنائی نہیں
شو قِ تفریحِ چمن میں ترکِ صحرا کس لیے ؟
خوگرِ ِ صرصر ! صبا شایانِ سودائی نہیں
ہے سرابِ دشت آئینہ جنونِ قیس کو
چاک ِ دامان و گریباں نقص ِ...
اقبالؔ کے یہ تین اشعار دیکھیے :
(1)صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے، پا بہ گل بھی ہے
انھی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے
(2)
مینا مدام شورش قلقل سے پا بہ گل
لیکن مزاج جام خرام آشنا خموش
(3)
کہا جوقمری سے میں نے اک دن ، یہاں کے آزاد پا بہ گل ہیں
توغنچے کہنے لگے ، ہمارے چمن کا یہ رازدار ہو گا
میں نہیں سمجھپایا ۔عروض کی بنیاد ہی ترنم پر ہے۔ پھر ان ساری بحروں کا کیا کیا جائے جو اردو میں مستعمل ہی نہیں۔پھر علم عروض کو بھی مفصل کیوں سکھا جائے۔بس چند مستعمل اوزان ازبر کر لیے جائیں۔
ترکیب ”سروِ پا بہ گل " (”گل“ بمعنی پھول) نہیں ہے بلکہ" سرو پا بہ گِل "(” گِل “بمعنی مٹی ) ہے ۔ کنفیوژن نہ ہو اسلیے میں نے" گ" کے نیچے زیر بھی لگایاتھا ۔
کیا ”حرکت“ کو رائے ساکن کے ساتھ نہیں باندھا جاسکتا ؟
لاہور سے شائع ہونےوالے آج ہی کے اخبار” نوائےوقت “ میں ”حرکت ،برکت“ نامی مضمون شائع...
شکریہ
کیا "حرکت " کو رائے ساکن کے ساتھ نہیں باندھ سکتے ؟
ڈاکٹر اقبالؔ نے کئی جگہ "عظمت " کو ظائے ساکن کے ساتھ باندھا ہے ۔
جیسے :
سواد رومة الکبریٰ میں دلی یاد
آتی ہے
وہی عبرت وہی عظمت وہی شانِ دلآویزی
آپ کی "تل" والی اصلاح بہت عمدہ تھی ۔ وہ ترکیب مجھے کھٹک رہی تھی مگر مناسب تبدیلی نہيں...
کیا آپ ایطاء کی تعریف بیان کرنے کی زحمت گوارا فرمائیں گے ؟
اور یہ آپ نے کیا فرمایا کہ ایطا کوئی بڑی خطا نہیں ہے ؟
جنابِ والا ! ایک ماہر عروض کا قول میں نے سنا بھی ہے اور پڑھا بھی ہے کہ ایطا عیوب فوافی میں سے ایک فحش عیب ہے۔
میں تو سمجھ نہیں پایا کہ ایطاء کیسے ہوا احزاں اور لرزاں میں ۔احزاں تو ایک مستقل لفظ ہے(اگرچہ حزن کی جمع ہے )
غالب کا بھی تو ایک شعر ہے
بس کہ دشوار ہے ہر کا م کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا