ترکیب ”سروِ پا بہ گل " (”گل“ بمعنی پھول) نہیں ہے بلکہ" سرو پا بہ گِل "(” گِل “بمعنی مٹی ) ہے ۔ کنفیوژن نہ ہو اسلیے میں نے" گ" کے نیچے زیر بھی لگایاتھا ۔
کیا ”حرکت“ کو رائے ساکن کے ساتھ نہیں باندھا جاسکتا ؟
لاہور سے شائع ہونےوالے آج ہی کے اخبار” نوائےوقت “ میں ”حرکت ،برکت“ نامی مضمون شائع ہوا ہے جس میں ان الفاظ کے تلفظ پر بحث کی گئی ہے ۔
لنک یہ ہے:
حرکت‘ برکت
چونکہ اخبار انٹرنیٹ پر زیادہ عرصے تک دستیاب نہيں رہتے اسلئے وہ پورا مضمون بھی paste کر دیتا ہوں :
آج: سوموار ,17 جولائی ,2017
حرکت‘ برکت
مکرمی! استاد اور معروف شاعر جناب سعد اللہ شاہ صاحب کا مراسلہ بسلسلہ تلفّظ‘ نظر سے گزرا جو انہوں نے جمشید چشتی صاحب کے کسی کالم کے جواب میں وضاحتاً لکھا ہے زیرِ بحث موضوع چونکہ علمی ہے اس لیے میں بھی اپنا موقف قارئینِ نوائے وقت کے سامنے پیش کر رہا ہوں تاکہ تصویر کا دوسرا رخ بھی سامنے آ سکے۔سعد اللہ شاہ صاحب نے اپنے مراسلے میں لکھا ہے کہ حرکت اور برکت کے تلفّظ میں ’’ر‘‘ متحرک ہو گی اور اگر کوئی حرکت کی ’’ر‘‘ ساکن استعمال کرے گا تو اس ایک غلط حَرَکَت ہو گی۔ محترم سعد اللہ شاہ صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ حرکت اور برکت دونوں عربی الفاظ ہیں اور عربی زبان میں ان کے تلفظ میں ’’ر‘‘ متحرک ہے لہٰذا اگر کوئی شخص ان دونوں لفظوں کو ’’ر‘‘ متحرک (یعنی حَرَکت اور بَرَکت) کے ساتھ استعمال کرتا ہے تو درست ہو گا لیکن اگر کوئی شخص ان دونوں الفاظ کو ’’ر‘‘ ساکن (یعنی حَرْکت اور بَرْکت) کے ساتھ استعمال کرتا ہے تو یہ بھی بالکل درست ہو گا کیونکہ عرصہ دراز سے ان دونوں الفاظ کا تلفظ نہ صرف اردو بلکہ فارسی میں بھی ’’ر‘‘ ساکن کے ساتھ مستعمل ہے۔سعد اللہ شاہ صاحب نے اپنے استدلال کے حق میں دس ہزار اشعار بطور سند پیش کرنے کا دعویٰ کیا ہے کم از کم مجھے ان کے اس دعوے پر رشک آور احساس ہوا ہے موصوف چونکہ ایک مقبول ومشہور شاعر اور استاد ہیں یقینا ان کا مطالعہ اس قدر وسیع ہو گاکہ وہ ایسا دعویٰ کر سکیں لیکن بڑی حیرت کی بات ہے کہ انہیں اپنے مرحوم دوست منیر نیازی کا یہ مشہور شعر کیوں یاد نہیں رہا ہوں جس کے مصرع اولیٰ میں حرکت کی ’’ر‘‘ ساکن ہے
منیر اس ملک پر آسیب کا سایا ہے یا کیا ہے کہ حَرْکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
ممکن ہے کہ سعد اللہ شاہ صاحب بوجوہ منیر نیازی کے اس شعر کو بطور سند قبول نہ کریں اس لئے میں ان کی خدمت میں اس شاعر کا شعر بطور سند پیش کر رہا ہوں‘ جس نے دہلی و لکھنؤ کے سحر کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے کہا تھا
حاسدانِ تیرہ باطن کو جلانے کے لئے تجھ میں اے پنجاب اقبال و ظفر پیدا ہوئے
اب میں اپنے مؤقف کے حق میں مولانا ظفر علی خان کا معروف ومقبول عام شعر درج کر رہا ہوں‘ نامعلوم یہ شعر بھی شاہ صاحب کی نظروں سے کیسے اوجھل رہ گیا
نورِ خدا ہے کفر کی حَرْکت پہ خندہ زن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
اس شعر کے مصرع اوّل میں حَرْکت کی ’’ر‘‘ ساکن ہے۔ اسی طرح برکت کے اردو تلفّظ کا معائنہ بھی حرکت جیسا ہے مثال کے طور پر یہ شعر دیکھئے
سچ تو یہ ہے کہ یہ نیت کی ہے ساری برکت
ہو گا خالی نہ کبھی خوانِ حام الدولہ (سحر) (بحوالہ فرہنگ کارواں از فضل الٰہی عارف)
مذکورہ بالا شعر کے پہلے مصرع میں بَرْکت کی ’’ر‘‘ ساکن ہے زبان ولغت کے ماہر وارث سرہندی مرحوم کہا کرتے تھے کہ ’’کسی بھی زبان میں ’’چلن‘‘ کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا‘‘ اب اگر اردو اور فارسی میں مدتِ مدید سے حرکت اور برکت کا تلفّظ ’’را‘‘ بسکون مستعمل ہو چکا ہے تو اس بات پر اڑنا کہ حرکت اور برکت کی ’’ر‘‘ کو متحرک ہی استعمال کیا جانا چاہئے نہایت غلط ہو گا۔
آئینِ نو سے ڈرنا‘ طرزِ کہن پہ اَڑنا منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
طاہر نظامی … پسرور 0300-6152042
نوٹ :پیسٹنگ یہاں ختم ہوئی
(کچھ باتیں اور بھی کرنی تھیں جو کل پر موقوف کرتاہوں ۔)