برائے نقد

اربابِ فن سے ملتمس التفات ہوں


  • Total voters
    1
خاموش ڈا لیوں پر ، ہر مرغِ گلستاں تھا
بلبل کی جستجو تھی ، کیا جانے وہ کہاں تھا

بیزا ر ِ زمز مہ گل ، آ ما دۂ فغاں تھا
گریہ کناں تھی نرگس ، شبنم سے جو عیاں تھا

یو ں پھیلنے لگا تھا اس غم سے داغِ لالہ
تھی تل ذرا سی سرخی سارا بدن تھا کالا

کیوں سرو ہے گریزاں تھی قمریوں کو حیرت
ہے درد وجہِ حرکت ؟ یا یہ ہے رقصِ فرحت

اس سروِ پا بہ گِل کو رفتار کی تھی حسرت
کیسی تلاشِ بلبل تھے پیر اسیرِ فطرت

صحرا نورد کیا ہو محر و م ِ سیرِ گلشن
وا حسر تا کہ بیکس عا جز بود ز ر فتن

✍شاعر :منفؔرد عطاری


ایک طویل نظم بہ شکلِ مسدس لکھنے کا ارادہ ہے جس کے یہ دو بند ملاحظہ فرمائیں ۔​
 
آخری تدوین:
محفل میں خوش آمدید۔
آپ کی لڑی اصلاحِ سخن کے زمرہ میں منتقل کر دی ہے۔ اصلاح کے لیے پیش کی جانے والی کاوشات کے لیے یہ زمرہ موجود ہے۔ :)
 

الف عین

لائبریرین
پوری نظم سامنے ہو تو کچھ کہہ بھی سکتے ہیں محض دو بندوں سے تو سمجھ نہیں سکا کہ یہ تمہید کیوں باندھی گئی ہے!
بیزا ر ِ زمز مہ گل ، آ ما دۂ فغاں تھا
اس میں 'گل' کے بعد کوما کنفیوز کر رہا ہے۔ کس کا زمزمہ؟
یہ سمجھ نہیں سکا
اس سروِ پا بہ گِل کو رفتار کی تھی حسرت
کیسی تلاشِ بلبل تھے پیر اسیرِ فطرت
 
شکریہ کہ آپ نے نظر التفات کی۔



چونکہ وزن برابر دو ٹکڑوں میں ہے ۔اسلئے کوما لگا لگایا ہے تاکہ وزن سے ناآشنا افراد برابر پڑھ سکے ۔یہ کلام نے پہلے واٹس ایپ گروپ پر ڈالا تھا ۔واٹس ایپ پر ہر قاری عروض سے واقف نہیں ہو تا۔ مگر ظاہر ہے آپ جیسے ماہرین فن کے لئے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔
نہیں۔
زمزمے سے مراد یہاں بلبل کا نغمہ ہے ۔
اور اس مصرع کا مطلب یہ ہے کہ وہ گل جو پہلے بلبل کے نغمے سے بھی بیزار تھا اب اس کا فغاں سننے کے لئے آمادہ ہو گیا تھا ۔
آپ کی بات بجا ہےکہ محض ان تمہیدی بند پر تبصرہ نہيں کیا جا سکتا ۔پوری نظم دیکھ کر ہی سمجھ میں آئے گا ۔

آپ نے دو اشعار کیوں نقل کیے شاید وہ کچھ کہنا چاہ رہے تھے ۔
مجھے یہ جاننا ہے کہ ان بند
میں زبان اور فصاحت درست ہے یا نہيں ؟
نیز یہ بھی جاننا چاہوں گا کہ "تھی تل ذدا سی ۔ ۔ ۔ "یہ مصرع زبان و بیان کےاعتبار سے درست ہے یا نہیں ؟
"سرو پا بہ گل " اس ترکیب میں سرو کے نیچے زیر ِ اضافی لگے گا یا نہیں ؟

"ہے درد وجہِ حرکت" میں تنافر تو واقع نہیں ہو رہا ہے نا؟ ("ہِ حرکت "کی وجہ سے)

اور کیا لفظ"حرکت "کو "ر "ساکن کرکے
باندھ سکتے ہیں ؟
 
مدیر کی آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
حرکت میں واقعی ’ر‘ پر سکون تھا۔ میں بھی صرف نظر کر گیا۔
وجہِ حرکت کا تنافر ضرور ہے مگر گوارا کیا جا سکتا ہے۔
تل ذرا سی کی ترکیب بھی عجیب سی ہی ہے۔تل کی طرح کیا جا سکتا ہے اسے۔
 
شکریہ
کیا "حرکت " کو رائے ساکن کے ساتھ نہیں باندھ سکتے ؟
ڈاکٹر اقبالؔ نے کئی جگہ "عظمت " کو ظائے ساکن کے ساتھ باندھا ہے ۔
جیسے :
سواد رومة الکبریٰ میں دلی یاد
آتی ہے
وہی عبرت وہی عظمت وہی شانِ دلآویزی

آپ کی "تل" والی اصلاح بہت عمدہ تھی ۔ وہ ترکیب مجھے کھٹک رہی تھی مگر مناسب تبدیلی نہيں سوجھ رہی تھی ۔آپ نے الجھن دور کر دی۔
آپ نے میرے "سرو " والے سوال کا جواب نہیں دیا ۔
"گریاں کناں۔ ۔ ۔ "یہ مصرع بہ اعتبارِ تخیل درست ہے یا نہیں ؟کیا اساتذہ کے ہاں اس قسم کا حسن ِ تعليل ملتا ہے کہ شبنم کو نتیجہ گریہء نرگس قرار دیا گیا ہو ؟
ایک سوال اور پوچھنا چاہوں گا کہ کیا کبھی تنافر روا بھی ہوتا ہے ؟کیونکہ آپ نےکہا کہ گوارا کیا جا سکتا ہے ۔
 

الف عین

لائبریرین
عظمت میں ظ متحرک نہیں، ساکن ہی ہے۔ لیکن حرکت میں ح ساکن نہیں۔
سروِ پا بہ گل کی ترکیب ہی میری سمجھ میں نہیں آئی۔ ایسا سرو کا درخت جس کے پیروں میں پھول بندھے ہوں؟
گریاں اور گریہ کناں ہم معنی ہیں۔ ’گریاں کناں‘ بے معنی لفظ ہے۔ اگر نیا تخیل بھی ہو کہ نرگس کا گریہ شبنم ہے، تو کیا کسی کو اعتراض ہو سکتا ہے؟
 
ترکیب ”سروِ پا بہ گل " (”گل“ بمعنی پھول) نہیں ہے بلکہ" سرو پا بہ گِل "(” گِل “بمعنی مٹی ) ہے ۔ کنفیوژن نہ ہو اسلیے میں نے" گ" کے نیچے زیر بھی لگایاتھا ۔
کیا ”حرکت“ کو رائے ساکن کے ساتھ نہیں باندھا جاسکتا ؟
لاہور سے شائع ہونےوالے آج ہی کے اخبار” نوائےوقت “ میں ”حرکت ،برکت“ نامی مضمون شائع ہوا ہے جس میں ان الفاظ کے تلفظ پر بحث کی گئی ہے ۔
لنک یہ ہے:

حرکت‘ برکت

چونکہ اخبار انٹرنیٹ پر زیادہ عرصے تک دستیاب نہيں رہتے اسلئے وہ پورا مضمون بھی paste کر دیتا ہوں :

آج: سوموار ,17 جولائی ,2017

حرکت‘ برکت

مکرمی! استاد اور معروف شاعر جناب سعد اللہ شاہ صاحب کا مراسلہ بسلسلہ تلفّظ‘ نظر سے گزرا جو انہوں نے جمشید چشتی صاحب کے کسی کالم کے جواب میں وضاحتاً لکھا ہے زیرِ بحث موضوع چونکہ علمی ہے اس لیے میں بھی اپنا موقف قارئینِ نوائے وقت کے سامنے پیش کر رہا ہوں تاکہ تصویر کا دوسرا رخ بھی سامنے آ سکے۔سعد اللہ شاہ صاحب نے اپنے مراسلے میں لکھا ہے کہ حرکت اور برکت کے تلفّظ میں ’’ر‘‘ متحرک ہو گی اور اگر کوئی حرکت کی ’’ر‘‘ ساکن استعمال کرے گا تو اس ایک غلط حَرَکَت ہو گی۔ محترم سعد اللہ شاہ صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ حرکت اور برکت دونوں عربی الفاظ ہیں اور عربی زبان میں ان کے تلفظ میں ’’ر‘‘ متحرک ہے لہٰذا اگر کوئی شخص ان دونوں لفظوں کو ’’ر‘‘ متحرک (یعنی حَرَکت اور بَرَکت) کے ساتھ استعمال کرتا ہے تو درست ہو گا لیکن اگر کوئی شخص ان دونوں الفاظ کو ’’ر‘‘ ساکن (یعنی حَرْکت اور بَرْکت) کے ساتھ استعمال کرتا ہے تو یہ بھی بالکل درست ہو گا کیونکہ عرصہ دراز سے ان دونوں الفاظ کا تلفظ نہ صرف اردو بلکہ فارسی میں بھی ’’ر‘‘ ساکن کے ساتھ مستعمل ہے۔سعد اللہ شاہ صاحب نے اپنے استدلال کے حق میں دس ہزار اشعار بطور سند پیش کرنے کا دعویٰ کیا ہے کم از کم مجھے ان کے اس دعوے پر رشک آور احساس ہوا ہے موصوف چونکہ ایک مقبول ومشہور شاعر اور استاد ہیں یقینا ان کا مطالعہ اس قدر وسیع ہو گاکہ وہ ایسا دعویٰ کر سکیں لیکن بڑی حیرت کی بات ہے کہ انہیں اپنے مرحوم دوست منیر نیازی کا یہ مشہور شعر کیوں یاد نہیں رہا ہوں جس کے مصرع اولیٰ میں حرکت کی ’’ر‘‘ ساکن ہے
منیر اس ملک پر آسیب کا سایا ہے یا کیا ہے کہ حَرْکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
ممکن ہے کہ سعد اللہ شاہ صاحب بوجوہ منیر نیازی کے اس شعر کو بطور سند قبول نہ کریں اس لئے میں ان کی خدمت میں اس شاعر کا شعر بطور سند پیش کر رہا ہوں‘ جس نے دہلی و لکھنؤ کے سحر کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے کہا تھا
حاسدانِ تیرہ باطن کو جلانے کے لئے تجھ میں اے پنجاب اقبال و ظفر پیدا ہوئے
اب میں اپنے مؤقف کے حق میں مولانا ظفر علی خان کا معروف ومقبول عام شعر درج کر رہا ہوں‘ نامعلوم یہ شعر بھی شاہ صاحب کی نظروں سے کیسے اوجھل رہ گیا
نورِ خدا ہے کفر کی حَرْکت پہ خندہ زن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
اس شعر کے مصرع اوّل میں حَرْکت کی ’’ر‘‘ ساکن ہے۔ اسی طرح برکت کے اردو تلفّظ کا معائنہ بھی حرکت جیسا ہے مثال کے طور پر یہ شعر دیکھئے
سچ تو یہ ہے کہ یہ نیت کی ہے ساری برکت
ہو گا خالی نہ کبھی خوانِ حام الدولہ (سحر) (بحوالہ فرہنگ کارواں از فضل الٰہی عارف)
مذکورہ بالا شعر کے پہلے مصرع میں بَرْکت کی ’’ر‘‘ ساکن ہے زبان ولغت کے ماہر وارث سرہندی مرحوم کہا کرتے تھے کہ ’’کسی بھی زبان میں ’’چلن‘‘ کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا‘‘ اب اگر اردو اور فارسی میں مدتِ مدید سے حرکت اور برکت کا تلفّظ ’’را‘‘ بسکون مستعمل ہو چکا ہے تو اس بات پر اڑنا کہ حرکت اور برکت کی ’’ر‘‘ کو متحرک ہی استعمال کیا جانا چاہئے نہایت غلط ہو گا۔
آئینِ نو سے ڈرنا‘ طرزِ کہن پہ اَڑنا منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
طاہر نظامی … پسرور 0300-6152042

نوٹ :پیسٹنگ یہاں ختم ہوئی

(کچھ باتیں اور بھی کرنی تھیں جو کل پر موقوف کرتاہوں ۔)
 
مدیر کی آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اساتذہ سے بھی اغلاط ممکن ہیں۔ کم از کم میں تو ایسی بے برکت حرکت نہیں کر سکتا کہ ان کو قبول کر لوں۔ سرو والی ترکیب اب بھی میری ناقص عقل میں نہیں آ سکی
 
اقبالؔ کے یہ تین اشعار دیکھیے :

(1)صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے، پا بہ گل بھی ہے
انھی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے

(2)
مینا مدام شورش قلقل سے پا بہ گل
لیکن مزاج جام خرام آشنا خموش

(3)
کہا جوقمری سے میں نے اک دن ، یہاں کے آزاد پا بہ گل ہیں
توغنچے کہنے لگے ، ہمارے چمن کا یہ رازدار ہو گا
 
Top