آساں نہیں تھی ترکِ محبت کی داستاں
دو آنسوؤں نے آخری پیغام لکھ دیا
ہم کو کسی کے حُسن نے شاعر بنادیا
ہونٹوں کا نام لےنہ سکے، جام لکھ دیا
اللہ زندگی سے کہاں تک نبھاؤں میں
اس بے وفا کیساتھ میرا نام لکھ دیا
تقسیم ہو رہی تھیں خدائی کی نعمتیں
اک عشق بچ گیا سو میرے نام لکھ دیا
قیصر کسی کی دَین ہے یہ...
مجھے تو اچھے لوگ بہت ملے، میں تو ان کے قرض سے مرگیا
اگر ہوسکے تو کبھی کبھی، تو خراب بن کے ملا کرو
ابھی سوچنا ہے تو سوچ لو، ابھی چھوڑنا ہے تو چھوڑ دو
نئے موسموں میں ملو مجھے، تو گلاب بن کے ملا کرو
وہ جن کو ہم تری قربت میں بھول بیٹھے تھے
وہ لوگ تیری جدائی کے بعد یاد آئے
ہم اتنے بھی گئے گزرے نہیں تھے جانِ فراز
کہ تجھ کو ساری خدائی کے بعد یاد آئے
احمد فراز
چمن میں نغمہ سرائی کے بعد یاد آئے
قفس کے دوست رہائی کے بعد یاد آئے
وہ جن کو ہم تری قربت میں بھول بیٹھے تھے
وہ لوگ تیری جدائی کے بعد یاد آئے
وہ شعر یوسفِ کنعاں تھے جن کو بیچ دیا
ہمیں قلم کی کمائی کے بعد یاد آئے
حریمِ ناز کے خیرات بانٹنے والے
ہر ایک در کی گدائی کے بعد یاد آئے
حریمِ ناز کے...
ایسا بننا سنورنا مُبارک تُمہیں
کم سے کم اِتنا کہنا ہمارا کرو
چاند شرمائے گا چاندنی رات میں
یُوں نہ زُلفوں کو اپنی سنوارا کرو
یہ تبسّم یہ عارض یہ روشن جبِیں
یہ ادا یہ نِگاہیں یہ زُلفیں حسِیں
آئینے کی نظر لگ نہ جائے کہیں
جانِ جاں اپنا صدقہ اُتارا کرو
دِل تو کیا چیز ہے جان سے جائیں گے
موت آنے سے...
اُس کے لہجے میں پکارا ہے مجھے موجوں نے
تم کنارے پہ رہو، میں تو چلا پانی میں
جھیل پہ رات گئے تم یہ کسیے ڈھونڈتے ہو
کیا تمہارا بھی کوئی ڈوب گیا پانی میں ؟