1۔ مل گئیں میری طرح گر عشق میں تنہائیاں
چھوٹ جائیں گی یہ ساری انجمن آرائیاں
2۔وہ مزا ساقی نہ تیری مے نہ مےخانے میں ہے
جو مزا محبوب کی آنکھوں کے پیمانے میں ہے
3۔یوں بدلی چمن کی فضا آج کل
کہ رہزن بنے رہنما آج کل
4۔ہماری خو تو تسلیم و رضا ہے
ستم گر پھر بھی مجھ ہی سے خفا ہے
5۔کاٹی ہیں کیسے یار کو...
اسے دیکھ ہے مست ہر حسن والا
کہ آیا شباب اس پہ ایسا نرالا
طبیعت تو شاید نہ اتنی بگڑتی
یہ بیمار پرسی نے اف! مار ڈالا
تری یاد میں اس قدر روئے صاحب
کہ آنکھیں بنیں میری دریا و نالا
تمہی آبرو ہو مری شاعری کی
تمہی ہو مری شاعری کا حوالہ
سنو! گر جو پوچھو ہو عاصمؔ کی بابت
کہ ہے سیدھا سادا کہ ہے بھولا بھالا
کہیں حال کیا ہم نشینوں کے صاحب
کہ ہیں سانپ سب آستینوں کے صاحب
ترے وصل میں جیسے صدیاں بھی لمحہ
ترے ہجر میں دن مہینوں کے صاحب
نظر آسماں پہ بھی ہے ان کی ہر دم
بنے ہیں جو مالک زمینوں کے صاحب
مرے عشق کی شعلہ گرمی سے عاصم
دھڑکتے ہیں دل آبگینوں کے صاحب
کہیں حال کیا ہم نشینوں کے صاحب
کہ ہیں سانپ سب آستینوں کے صاحب
ترے وصل میں جیسے صدیاں بھی لمحہ
ترے ہجر میں دن مہینوں کے صاحب
نظر آسماں پہ بھی ہے ان کی ہر دم
بنے ہیں جو مالک زمینوں کے صاحب
مرے عشق کی شعلہ گرمی سےعاصم
دھڑکتے ہیں دل آبگینوں کے صاحب
بن کے عاشق وجہ رسوائی رہیں
کب تلک یارو تماشائی رہیں
وہ پری چہرہ جو دیکھا خواب میں
آخرش اس کے تمنائی رہیں!
تیری زلفیں ہم پہ یونہی رات دن
کاش بن کر اک گھٹا چھائی رہیں
عقدثانی اس لیے کرتا نہیں
کیا خبر آپس میں ٹکرائی رہیں
بن کے عاشق وجہ رسوائی رہیں
کب تلک یارو تماشائی رہیں
وہ پری چہرہ جو دیکھا خواب میں
آخرش اس کے تمنائی رہیں
تیری زلفیں ہم پہ یونہی رات دن
کاش بن کے اک گھٹا چھائی رہیں
عقدثانی اس لیے کرتا نہیں
کیا خبر آپس میں ٹکرائی رہیں
کہیں حال کیا ہم نشینوں کے صاحب
کہ ہیں سانپ سب آستینوں کے صاحب
ترے وصل میں جیسے صدیاں بھی لمحہ
ترے ہجر میں دن مہینوں کے صاحب
مرے عشق کی شعلہ گرمی سے عاصم
دھڑکتے ہیں دل آبگینوں کے صاحب