بعینہ یہی لفظ میں نے اپنے آٹھ سالہ بیٹے سے کہا تھا:
“کوئی چڑائے تو چڑنے کا نہیں، اور کوئی ستائے تو ‘ستنے‘ کا نہیں“
تو وہ ہنس دیا، کہ ابا، یہ کون سا لفظ ہے۔
میں نے تو ایسے ہی کہہ دیا تھا۔ پھر سوچا کہ تحقیق کرنا چاہئے کہ اس موقع کے لئے واقعی کوئی لفظ ہے۔
جس طرح قدیم آوے، جاوے کی جگہ اب آئے جائے مستعمل ہے۔
تو قدیم “لیوے“ کی جگہ کیا استعمال ہوگا؟
صرف “لے“؟
مثلا غالب کا یہ شعر جدید میں کیا ہوگا؟
کام اس سے آ پڑا ہے کہ جس کا جہان میں
لیوے نہ کوئی نام ستمگر کہے بغیر
لے نہ کوئی نام۔۔۔ کچھ ادھورا سا لگتا ہے۔۔۔
پہلے شعر کے دوسرے مصرعے میں بھی “ہے“ زیادہ ہے۔ لیکن وہاں “ہے“ ہٹا دینے سے معنی پورا نہیں ہوگا۔
ممکن ہے اصلی شعر اس حالت میں رہا ہو:
کیا غم ہے جسے چھپا رہے ہو
لیکن فلم کی وجہ سے “جس کو“ مشہور ہوگیا ہو۔۔۔
ساحر لدھیانوی
یہ آنکھیں دیکھ کر ہم ساری دنیا بھول جاتے ہیں
انہیں پانے کی دھن میں ہرتمنا بھول جاتے ہیں
تم اپنی مہکی مہکی زلف کے پیچوں کو کم کرلو
مسافر ان میں گِھر کر اپنا رستہ بھول جاتے ہیں
یہ آنکھیں جب ہمیں اپنی پناہوں میں بلاتی ہیں
ہمیں اپنی قسم ہم ہر سہارا بھول جاتے ہیں
تمہارے نرم و نازک...
بالی ووڈ کی سب سے مشہور قوالی میں ساحر لدھیانوی کی سحر انگیز شاعری۔۔۔
ترتیب: شوکت پرویز
نہ تو کارواں کی تلاش ہے نہ تو ہم سفر کی تلاش ہے
مرے شوقِ خانہ خراب کو تری رہ گزر کی تلاش ہے
مرے نامراد جنون کا ہے علاج کوئی تو موت ہے
جو دوا کے نام پہ زہر دے اسی چارہ گر کی تلاش ہے
ترا عشق ہے مری آرزو ترا...
بہت خوب محمد ریحان صاحب!
۔۔۔۔
اس مثال میں الگ بحر مقتبس ہو گئی ہے۔
۔۔۔۔
اس کی درست بحر اور درست اقتباس یہ ہوگا۔
گلشن کو تری صحبت از بسکہ خوش آئی ہے
ہر غنچے کا گل ہونا آغوش کشائی ہے
جو مصر ہو اپنے گناہ پر وہی معتبر ہے قبول ہے
یہی اہلِ دہر کی ہے روش یہی میکدہ کا اصول ہے
ابھی بات عارض و لب کی ہے کسی مہ جبیں کے غضب کی ہے
یہی بات آج کی اب کی ہے ابھی ذکرِ دین فضول ہے
وہ جو گال نرم و گداز ہیں جو نہاں نشیب و فراز ہیں
وہ جو دوسرے کئی راز ہیں وہی شاعری کا حصول ہے
جو برہنگی میں...