یہی اہلِ دہر کی ہے روش یہی میکدہ کا اصول ہے

شوکت پرویز

محفلین
جو مصر ہو اپنے گناہ پر وہی معتبر ہے قبول ہے
یہی اہلِ دہر کی ہے روش یہی میکدہ کا اصول ہے

ابھی بات عارض و لب کی ہے کسی مہ جبیں کے غضب کی ہے
یہی بات آج کی اب کی ہے ابھی ذکرِ دین فضول ہے

وہ جو گال نرم و گداز ہیں جو نہاں نشیب و فراز ہیں
وہ جو دوسرے کئی راز ہیں وہی شاعری کا حصول ہے

جو برہنگی میں شمار ہے اب اسی پہ قول و قرار ہے
نئے دور کی یہ بہار ہے جو یہاں کا خار بھی پھول ہے

وہ جو نقد کر سکے دین پر وہ جو لائے عرش زمین پر
کرے شک کتاب مبین پر وہ نئے ادب کا رسول ہے

مری شاعری بھی عجیب ہے یہ نئی روش کی رقیب ہے
یہ جو شوکت آج نقیب ہے یہ نئے چمن کا ببول ہے

شوکت پرویز
۲۹ اکتوبر، ۲۰۱۷
 
آخری تدوین:
Top