راہِ ہوس کو اور بھی ہموار مت کرو
نادانو ! شاہزادے کو بیدار مت کرو
یہ کہہ رہے ہیں دھوپ کے سفّاك زاویے
اب اعتبارِ سایہء أشجار مت کرو
اك حملہ فتح یاب کرے گا ہمیں مگر
میرِ سپہ کا حکم ہے یلغار مت کرو
شب زادو! آؤ سامنے روشن چراغ کے
چھپ کر منافقوں کی طرح وار مت کرو
درّانہ شور کرتی ہوئی آئیں...
ہوں پارسا ترے پہلو میں شب گزار کے بھی
میں بے لباس نہیں پیرہن اتار کے بھی
ہر ایک سر کو بلندی عطا نہیں کرتے
اصول ہوتے ہیں کچھ تو صلیب و دار کے بھی
ہمارے عکس بھی دھندلے ہوئے تو ہم سمجھے
کہ آئینوں سے ہیں رشتے یہاں غبار کے بھی
نہ آبلوں سے ہے رغبت نہ پاؤں سے...
کبھی اکیلے میں مل کر جھنجوڑ دونگا اُسے
جہاں جہاں سے وہ ٹوٹا ہے جوڑ دونگا اُسے
مجھے ہی چھوڑ گیا یہ کمال ہے اُس کا
ارادہ میں نے کیا تھا کہ چھوڑ دونگا اُسے
پسینہ بانٹتا پھرتا ہے ہر طرف سورج
کبھی جو ہاتھ لگا تو نچوڑ دونگا اُسے
مزہ چکھا کے ہی مانا ہوں میں بھی دُنیا کو
سمجھ رہی تھی کہ ایسے ہی چھوڑ...
دنداں شکن جواب ہیں میری صدی کے لوگ
دنگل کی ایک کتاب ہیں میری صدی کے لوگ
ڈسکو فقیر لیتے ہیں خیرات میں جہیز
کیا صاحب عذاب ہیں میری صدی کے لوگ
گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں روز روز
ٹکنی کلر سراب ہیں میری صدی کے لوگ
حاجت نہیں ہے ووٹوں کی ایسے ہیں باکمال
آپ اپنا انتخاب ہیں میری صدی کے لوگ
ہر...
تم کو نہیں ہے یاد ابھی کل کی بات ہے
باہم تھا اتحاد ابھی کل کی بات ہے
منزل تھی ایک جس پہ بہم گامزن رہے
بالکل نہ تھا تضاد ابھی کل کی بات ہے
اک روشنی تھی دل میں بہت پاک و صاف تھے
ایسا نہ تھا عِناد ابھی کل کی بات ہے
بنیاد خود ہی آپ نے رکھی نفاق کی
شیر و شکر تھے شاد ابھی کل کی بات ہے
صحنِ چمن میں...
چمکتے خوابوں کی بستی بسانے والی ہے
ہوا جو تیرے جھروکے سے آنے والی ہے
بجھائے جاتی ہے اک ايک کرکے سارے دیے
یہ رات پھر کوئی طوفاں اٹھانے والی ہے
کنارے رہنے دو قانون کی کتابوں کو
کہ شاہزادی عدالت میں آنے والی ہے
کبھی تو لگتا ہے یہ قوم یوں ہی سوتے ہوئے
تباہی اپنا مقدّر بنانے والی ہے
مرے جوانوں...
کچھ تو بتا اے دھوپ کی یلغار کیا ہوئے
تھی جن کی ذات سایہ ٔ اشجار کیا ہوئے
ٹھوکر میں جن کی رہتی تھیں جابر حکومتیں
وہ صاحبان جبہ و دستار کیا ہوئے
جو پاس دار عظمت نانِ جویں کے تھے
تھے خاک جن کو درہم و دینار کیا ہوئے
جن کے نقوش پا پہ بہاریں کریں قیام
وہ تارکین سبزہ و گلزار کیا ہوئے
جن کا وجود...
خزانہ آنکھوں کا ایسے کہیں لٹا ہی نہیں
کوئی بھی شخص یہاں خواب دیکھتا ہی نہیں
مرا قبیلہ سپاہی نہیں مجاہد ہے
کسی بھی حال میں تلوار بیچتا ہی نہیں
پڑی ہے فکر خلاؤں میں رنگ بھرنے کی
زمیں کا قرض ابھی تک ادا ہوا ہی نہیں
مرے وجود نے خوش فہمی خاک کرڈالی
وہ مطمئن تھے کہ بستی میں آئینہ ہی نہیں...
بہاروں کے پیمان بدلے گئے ہیں
جنوں کے گریبان بدلے گئے ہیں
دکها کر لہکتے ہوئے سبز باغ
طبیعت کے رجحان بدلے گئے ہیں
عناصر میں پا کر نمودِ حیات
مشیت کے فرمان بدلے گئے ہیں
نظر دشنہء آستیں بن گئی ہے
کہانی کے عنوان بدلے گئے ہیں
جبینیں جهکا کر چلے تیشہ زن
کہ محلوں کے دربان بدلے گئے ہیں
حنا بندیاں...