غالب کے اڑیں گے پُرزے

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
سنو میری فریاد، المدد شمشاد
شمشاد بھائی اس دھاگے کا نام تبدیل کر دیں ، اور درگت کے نام سے ہو سکے تو ایک الگ دھاگہ تشکیل دے دیا جائے ، تاکہ ایک ہی صف میں محمود و ایاز کھڑے کر کے چاند ماری کی جائے
اور درمیان سے غیر متعلقہ مواد بھی غائب کیا جاسکے تو آنند آجائے
 
2۔غالب کے کلام کی پیروڈی​
غزل
محمد خلیل الرحمٰن
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ کبھی اُدھار ہوتا
ہمیں سودا پورا دیتا، وہ دکان دار ہوتا
ترے باپ نے جو دیکھا ، گئی جان مفت اپنی
نہ تجھے عزیز رکھتے، نہ یہ کار زار ہوتا
لڑے عاشقوں سے تیرے ، یہ ہماری بد نصیبی
ہمیں عشق نے ڈبویا کہیں ایک بار ہوتا
مجھے دوستوں نے لوٹا، مجھے غیر نے کھسوٹا
مجھے کیا برا تھا لُٹنا ، اگر ایک بار ہوتا
تو سبھی کو چھوڑ دیتی، مری جان آہی جاتی
مری بات کا تجھے بھی اگر اعتبار ہوتا
کئی ایسے تھے لطیفے جنہیں میں سنا کے اُٹھا
تو کبھی تو مسکراتی ، جو تجھے بھی پیار ہوتا
وہ کسی کی دانتا کِل کِل، وہ ترا حساب غالب
تجھے محتسب سمجھتے جو نہ شیر خوار ہوتا
 
3۔غالب کے کلام کی پیروڈی​
غزل
محمد خلیل الرحمٰن
اے پریشاں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اِس شور کی وجہ کیا ہے
دیکھ کر خواہشوں کی لسٹ بتا
سوکھی تنخواہ میں ہوا کیا ہے
جبکہ بیوی ہے اب تری موجود
پھر یہ جوہی کا ماجرا کیا ہے
گھر میں اِک پاندان رکھتا ہوں
کاہے پوچھو ہو پان سا کیا ہے
چائے پانی کو پوچھ لے کوئی
اور مہمان کی صدا کیا ہے
پخ کی مانند بھاگنے والا
خود نہیں جانتا گدھا کیا ہے
مان لینا کہ کچھ تو ہے غالب
کچھ نہیں، پھر یہ شور سا کیا ہے
 

عین عین

لائبریرین
خلیل صآحب، کیا بات ہے ، مزہ آ گیا۔ واہ بہت خوب۔ بلکہ زبردست ۔ تمام "گجلز" پسند آئیں۔
واہ جناب۔ مزید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سلسلہ جاری رہے تاکہ مسکراہٹوں اور بعض مرتبہ قہقہوں کا سلسلہ جاری رہے۔
 

یوسف-2

محفلین
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے​
نہ شعلے میں یہ کرشمہ نہ برق میں یہ ادا
کوئی بتاؤ کہ وہ شوخِ تند خو کیا ہے​
یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے
وگرنہ خوفِ بد آموزیِ عدو کیا ہے​
چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہمارے جَیب کو اب حاجتِ رفو کیا ہے​
جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے​
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ سے ہی نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز
سوائے بادۂ گلفامِ مشک بو کیا ہے​
پیوں شراب اگر خم بھی دیکھ لوں دو چار
یہ شیشہ و قدح و کوزہ و سبو کیا ہے​
رہی نہ طاقتِ گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے​
ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے​
ہم نے شاعر ’’بننے" کی بڑی "کوشش" کی، لیکن جب شاعر نہ بن سکے تو انتقاما" بڑے شعراء کے کلام کی "پیروڈی" شروع کردی :D غالب کی اس غزل کے چند اشعار کی پیروڈی بھی لکھی جو برسوں قبل اخبار جہاں میں شائع ہوئی تھی۔ اس وقت صرف ایک شعر یاد ہے، وہ بھی اس لئے کہ اسے بعد ازاں ایک خواتین کے پرچہ میں کسی خاتوں کا بطور ’’پسندیدہ شعر‘‘ پڑھنے کو ملا :D
صحن میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جو ساس ہی کو نہ پٹکے وہ بہو کیا ہے
 
4۔غالب کے کلام کی پیروڈی​
ایک سیاسی غزل پیشَ خدمت ہے۔



کئی ایسے بھی جلسے ہیں کہ جب جلسے میں ہم نکلے
بہت ہم نے گنے حامی مگر پھر بھی وہ کم نکلے
ڈرے کیوں اب عوام اپنی کہ کیا رہ جائے گا گھر میں​
ہماری بھتہ خوری پر ابھی سے اُن کا دم نکلے
ملامت بھی، ہزیمت بھی، شکستِ آدمیت بھی​
بہت بے آبرو ہوکر سیاست میں قدم نکلے

سیاست میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اُسی کو مارتے ہیں ہم کہ جس پبلک پہ دم نکلے

کہاں قصرِ صدارت اور کہاں جیلوں کے دروازے
بس اتنا جانتے ہیں ہم، کسی جانب قدم نکلے

اگر لکھوائے کوئی اب جو ’’میمو ‘‘ہم سے لکھوائے
کہ ’’میمو گیٹ‘‘ سے ہم کان پر رکھ کر قدم نکلے

خلیل اب آپ ہی کا دم غنیمت رہ گیا ورنہ
کہاں غالب کی غزلیں تھیں کہ بس اُن پر ہی دم نکلے
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
بہت عمدہ سر جی، جی خوش ہوگیا، قسم سے

سیاست میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اُسی کو مارتے ہیں ہم کہ جس پبلک پہ دم نکلے
(کمال کی چوٹ ہے جناب، بہت عمدہ)
لیکن ایک چھوٹی سی فدویانہ تجویز ہے
کہاں قصرِ صدارت اور کہاں جیلوں کے دروازے
بس اتنا جانتے ہیں ہم، کسی جانب قدم نکلے
اس دوسرے مصرعے کو

"بس اتنا جانتے ہیں ،کل وہ آتا تھا کہ ہم نکلے" کر لیں تو مزا اور لطافت میں شاید اضافہ ہو جائے
 
مگر محمد خلیل الرحمٰن قلم کی جگہ کانوں پر قدم رکھ گئے، میں سوچ کر پریشان تھا کہ کانوں پر قدم کے لئے بہت جمناسٹک کرنی پڑتی ہو گی۔
جی ہاں یہ ہے غالب کے پرزے اُڑانے والوں کا انجام۔حضرت استادَ محترم، اس جمناسٹک میں گویا
کسی کی جان گئی ، آپ کی ہنسی ٹھہری:)
آج صبح کام پر بھی آٹھ بجے پہنچ جانا تھا، اور علیٰ الصبح طبیعت کی موزونیت نے اس سیاسی غزل کو جنم دے دیا تھا، جسے گھر سے روانہ ہونے سے پہلے محفل کی زینت بنانا طے تھا۔ اِدھر مائیکرو سوفٹ آفس جواب دے گیا تھا، لہٰذا ورڈپیڈ پر جلدی جلدی لکھ کر نیٹ پر پہنچے تو اس جلدی میں کان پر قلم رکھ گئے اور اساتذہ کے لیے تفریحِ طبع کا باعث بنے۔ سودا مہنگا نہیں پڑا۔
 
بہت عمدہ سر جی، جی خوش ہوگیا، قسم سے

سیاست میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اُسی کو مارتے ہیں ہم کہ جس پبلک پہ دم نکلے
(کمال کی چوٹ ہے جناب، بہت عمدہ)
لیکن ایک چھوٹی سی فدویانہ تجویز ہے
کہاں قصرِ صدارت اور کہاں جیلوں کے دروازے
بس اتنا جانتے ہیں ہم، کسی جانب قدم نکلے
اس دوسرے مصرعے کو

"بس اتنا جانتے ہیں ،کل وہ آتا تھا کہ ہم نکلے" کر لیں تو مزا اور لطافت میں شاید اضافہ ہو جائے
عمدہ صلاح۔ داد قبول فرمائیے۔ سمجھئیے کہ شامل کردیا۔
 
5۔غالب کے کلام کی پیروڈی​
غزل
محمد خلیل الرحمٰن
رقیبوں کی رپٹ کا مدعا کیا
ہمارا اب ہے تھانے میں گِلا کیا
جنازہ پڑھ لیا پڑھ کر سپارے
نہ ہو کھانا تو جانے کا مزا کیا
پلاؤ اور زردے کی رقابیں
یہی ہوگا تو بعد از فاتحا کیا
پلاؤ تھا نہ زردے کی رقابیں
مرے پھوپھا کا سوئم ہوگیا کیا
بھلائے جائے ہے ظالم ہر اِک خو
محبت کیا، مودت کیا وفا کیا
’’ نگاہِ بے محابا‘‘ پڑ گئی جب
’’ تغافل ھائے تمکیں ‘‘ کا گِلا کیا
جب اپنی جان تم پر وار بیٹھے
وفا کی کیا ہے قیمت اور صِلا کیا
خلیل اِس بے وفا دورِ جنوں میں
شہیدانِ وفا کا پوچھنا کیا
 
جنازہ پڑھ لیا پڑھ کر سپارے
نہ ہو کھانا تو جانے کا مزا کیا
پلاؤ اور زردے کی رقابیں
یہی ہوگا تو بعد از فاتحا کیا
پلاؤ تھا نہ زردے کی رقابیں
مرے پھوپھا کا سوئم ہوگیا کیا
مندرجہ بالا تینوں شعر ہم نے ایک بھاری دل کے ساتھ، پھوپھا جان کی وفات اور سوئم سے متاثر ہوکر لکھے ہیں۔ اللہ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ مرحوم عرصہ ایک سال سے صاحبِ فراش تھے۔ اللہ والے آدمی تھے۔ سکون سے جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ مرنے سے کچھ دِن پہلے بچوں کو ہدایت کی تھی کہ اُن کی جیب سے پانچ سو روپیے نکال کر سب گھر والوں کے لیے بریانی کا انتظام کریں۔ جانے کیا رمز تھا اِس میں؟

اللہ اللہ کیا زمانہ آگیا ہے کہ اب ہم تدفین پر جاتے ہیں تو اس محفل میں بھی ہنسی مذاق ہورہے ہوتے ہیں۔ تدفین کے بعد اور سوئم میں کھانا ایک رسم بن گیا ہے۔ کیا ہم انھی رسومات کے قیدی رہیں گے یا اکیسویں صدی کا کوئی مجدد یا مجتہد اس رسم کو توڑ ڈالے گا؟
 

الف عین

لائبریرین
خوب خلیل۔ یہ اشعار تو نمکین نہیں، لیکن خوب ہیں۔
’’ نگاہِ بے محابا‘‘ پڑ گئی جب
’’ تغافل ھائے تمکیں ‘‘ کا گِلا کیا
جب اپنی جان تم پر وار بیٹھے
وفا کی کیا ہے قیمت اور صِلا کیا
خلیل اِس بے وفا دورِ جنوں میں
شہیدانِ وفا کا پوچھنا کیا
 
Top