ڈینگی'ایک خونی وائرس

hakimkhalid

محفلین

aedes_aegypti.jpg

٭تحریر:حکیم قاضی ایم اے خالد٭
٭ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب اور بارشوں کی وجہ سے اس سال ڈینگی وائرس کا حملہ شدید ہو سکتا ہے٭
٭موثر آگاہی مہم اور بروقت اقدامات ہی اس مرض کو کنٹرول میں رکھ سکتے ہیں٭
٭ہربل سسٹم آف میڈیسن (طب یونانی )کے مطابق شہد'رائل جیلی اور پپیتے کے پتے ڈینگی بخار کا بہترین علاج ہیں٭
٭ احتیاطی تدابیر کے طور پر سرکہ اور پیاز کا استعمال کر کے ڈینگی وائرس سے بچا جا سکتا ہے٭
٭ڈینگی مچھروں سے محفوظ رہنے کیلئے کا فوراور لیمن گراس گھروں میں مختلف جگہوں پر رکھیں٭

اقوام متحدہ کے صحت کے ادارے کے مطابق دنیابھر میں ہرسال پانچ کروڑ سے زائدافراد ڈینگی بخار کا شکار ہوتے ہیںاور سالانہ بیس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔ دنیا کے ایک سو کے قریب ممالک میں ڈینگی وائرس پھیلانے والے اڑتیس اقسام کے مچھر ہیں جس میں سے پاکستان میں ان میں سے صرف ایک قسم کا مچھر پایا جاتا ہے۔ دنیامیں ہر سال پانچ کروڑ کیسزسامنے آتے ہیں ۔ڈینگی فیور سے بچا ؤکی نہ تو کوئی دوا ہے اورنہ ہی کوئی ٹیکہ ہے ڈینگی بخار کو صرف حفاظتی امور سے روکا جا سکتا ہے۔پاکستان سمیت ایشیا میں ڈینگی فیور کاخطرہ بڑھ رہاہے ڈبلیو ایچ او کا کہناہے کہ ایشیامیں ڈینگی کے بڑھتے ہوئے کیسز کی وجہ درجہ حرارت میں اضافہ'کئی علاقوں میں شدیدبارشیں'سیلاب اور بڑھتی ہوئی آباد ی ہے۔ عالمی ادارہ برائے صحت نے متنبہ کیا ہے کہ اگر حکومتوں نے ضروری اقدامات نہ کئے تو ڈینگی بخار سے دنیا کی تقریبا ڈھائی ارب آبادی کو اس سے خطرہ لاحق ہے۔ اقوام متحدہ کے تحت کام کرنے والے اس ادارے نے ایشیا پیسیفک کی37کے قریب حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس خطرناک بیماری سے بچنے کیلئے ایک علاقائی حکمت عملی کی توثیق کریں۔
وطن عزیز میں تادم تحریر ڈینگی وائرس اگرچہ ابھی صر ف ملک بھرکے کچھ شہروں تک محدود ہے لیکن دیگرمضافاتی علاقوں میں بھی ڈینگی بخار پھیلنے کاشدید خطرہ ہے۔گذشتہ سال2009میں خادم پنجاب شہباز شریف کی خصوصی ہدایات پر صوبہ پنجاب میں اس مرض سے بچاؤ کے بروقت موثر اقدامات کئے گئے تھے جس کی وجہ سے یہ مرض سال2008کی طرح وبائی شکل اختیار نہ کر سکا جس میں پانچ ہزار سے زائد افراد اس مرض میں مبتلا ہوئے۔ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب اور بارشوں کی وجہ سے اس سال ڈینگی وائرس کا حملہ شدید ہو سکتا ہے جس کی وارننگ ڈبلیو ایچ او' دے چکا ہے لہذا صوبہ پنجاب سمیت دیگر صوبوں اوروفاقی وزارت صحت کوبھی اس صورتحال کا سنجیدگی سے ہنگامی بنیادوں پر فوری نوٹس لینا چاہئے نیزڈینگی سرویلنس سیلز کو فعال اور فوکل پرسنزنامزد کر دینے چاہئیں کیونکہ موثر آگاہی مہم اور بروقت اقدامات سے ہی اس مرض کو کنٹرول کیاجا سکتا ہے۔
اگرچہ ملا ئشین سا ئنسد ا ن ڈینگی وائرس سے بچا ؤکی پہلی ویکسین بنانے میں کا میا ب ہو گئے ہیں ۔ملا ئشین وزا رتِ صحت اورایک نجی کمپنی کے تعاون سے بنائی گئی یہ ویکسین جلد ہی ڈینگی سے بچا ؤکے لیے استعما ل کی جا ئے گی 'تاہم ابھی تک پاکستان سمیت دنیا بھر میں ڈینگی وائرس سے بچاؤ کیلئے کوئی ویکسین دستیاب نہیں۔
ڈینگی بخار کا باعث بننے والے مچھربڑا صفائی پسند ہے۔ یہ خطرناک مچھرگندے جوہڑوں میں نہیں بلکہ بارش کے صاف پانی ' گھریلو واٹرٹینک کے آس پاس'صاف پانی کے بھرے ہوئے برتنوں اور گلدانوں' گملوں وغیرہ میں جنم لیتے ہیں جو گھروں میں عام طور پر سجاوٹ کے لیے رکھے جاتے ہیں ۔ یہ مچھر انسان پر طلوع آفتاب یا غروب آفتاب کے وقت عملدرآمد ہو تے ہیں۔ڈینگی بڑا خطر ناک بخار ہے ۔ اس کے مابعد اثرات بھی ہیں ۔ اس بخار کا علم تین سے سات دن کے اندر ہو تا ہے ۔ عام سے نزلہ بخار کے ساتھ شروع ہونے والا بخار شدید سر درد ، پٹھوں میں درداور جسم کے جوڑ جوڑ کو جکڑ کر انسان کو بالکل بے بس کر دیتا ہے ۔ جسم کے اوپری حصوں پر سرخ نشان ظاہر ہو تے ہیں۔
نوعیت شدید ہو جائے تو ناک منہ سے خون بھی جاری ہو جاتا ہے ۔ طبی ماہرین کے مطابق یہ مخصوص حالات میں پیدا ہونے والا انتہائی اہم متعدی وائرس بخار ہے۔ جو کہ ایک خاص قسم کے مچھر Ades Aegytiکے کاٹنے سے ہو جاتا ہے ۔ یہ وائرس اور مچھر کی افزائش کھڑے صاف پانی میںہوتی ہیں ۔ ڈینگی وائرس بخار کی علاما ت شروع میں اس طرح ہو تی ہیں ۔
1 ۔ تیز بخار
2 ۔ سر میں شدید درد
3 آنکھوں کے ڈیلے میں شدید درد
4 تمام جسم کی ہڈیاں اور گوشت یہاں تک کہ جوڑ جوڑ میں درد
5بھوک کا مر جانا اور متلی کا ہونا
بیماری کے ایکوٹ جینز میں مریض شاک میں جا سکتا ہے اور بلڈ پریشر کم ہو سکتا ہے ۔ پاؤں ٹھنڈے ہو جاتے ہیں ۔ جسم کے اندرونی اور بیرونی حصوں پر باریک سرخ دانے ہوجاتے ہیں ۔
ڈینگی وائرس کا شکار ہونے والے افرادپراگر یہ وائرس دوبارہ حملہ آور ہو تو یہ جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔
اس مرض پر قابو پانا صر ف حکومت کے بس میں نہیں بلکہ پوری آبادی کو شعور دینے کی ضرورت ہے کہ وہ ایسے حالات پیدا کریں کہ مچھروں کی افزائش نہ ہو اور وہ خود مچھروںکے کاٹنے سے بچیں ۔
حکومت وقت کا فرض ہے ۔ کہ جہاں جہاں پانی کھڑا ہے ۔ وہاں دوائی ا سپرے کریں اور عوام کا کام ہے کہ ایسی جگہوں کی نشاندہی کریں اور گھروں میںصاف پانی کو بھی ڈھانپ کر رکھیں ۔ کیونکہ یہ مچھر صاف پانی میں ہی ہو تے ہیں کمیونٹی ہیلتھ ورکز اور این جی اوزکا بھی یہ فرض ہے ۔ کہ وہ علاقے میں نکل کر عوام کو اس مرض کے بارے میں بتائیں اور وہ اس سے بچنے اور اس کے بر وقت علاج کا شعور دیں ۔
پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل انسٹیٹیوٹ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر'معروف نیوروسرجن ڈاکٹررفیق بشارت نے ڈینگی بخار کے حوالے سے بتایاکہ یہ بیماری ایڈی قسم کے مچھروں کے کاٹنے سے انسانوں میں منتقل ہوتی ہے ۔ اس قسم کے مچھر انسان کے قریب قریب ، شہروں میں ہی رہتے ہیں ۔ کچھ مچھر ایسے ہوتے ہیں جن کی افزائش تالابوں اور جوہڑں میں ہوتی ہے ۔ جبکہ کچھ اقسام ایسی ہیں جوکہ گھروں کے اندر بھی افزائش کر لیتے ہیں ۔ ایڈی قسم کے مچھر ان میں شامل ہیں ۔ 1979-80 میں پہلی دفعہ اس بیماری کا پتہ چلا تھا ۔ جب بیک وقت تین براعظموں میں یعنی ایشیا' افریقہ اورامریکہ میں یہ وبا پھیلی تھی ۔ پاکستان میں 1994 میںپہلی مرتبہ اس کے متاثرہ افراد دیکھے گئے تھے ۔
ڈینگی فیور کی ابتدائی علامات میں بخار ، کمزوری ، پسینہ آنا اور بلڈ پریشر کم ہو جانا شامل ہیں ۔ آہستہ آہستہ یہ جسم کے سار ے نظام پر اثر کرتی ہے ۔ خون کی باریک نالیاں جنہیں ہم Cagillaryکہتے ہیں ۔ وہ پھٹنا شروع ہو جاتی ہیں ۔ جسم کے جس حصہ پر یہ دھبے نمایاں ہوں وہ حصہ نمایاں ہوتا ہے ۔ جب یہ بیماری دماغ اور حرام مغز پر حملہ کرتی ہے ۔ تو مریض کی موت بھی ہو سکتی ہے لیکن زیادہ تر مریض ایک یا ڈیڑھ دن میں بہتر ہوناشروع ہو جاتے ہیں ۔ اس کی علامات میں بخار ، سر درد ، پٹھوں ، جوڑوں میں درد ،بھوک کم لگنا ، الٹی آنا ، پسینہ زیادہ آنا جسم ٹھنڈا ہو جانا شامل ہیں ۔ مریض کابلڈ پریشر کم ہو جاتا ہے ۔ نبض آہستہ آہستہ اور کمزور ہو جاتی ہے ۔ جسم پر دھبے پڑ جاتے ہیںاور جگر بڑھ جاتاہے ۔ جب سے بیماری دماغ اور حرام مغز پر حملہ کرتی ہے ۔ تو فالج ، بے ہوشی ، لقوہ ، قسم کی علامات ہوتی ہیںیا تو مریض کا کوئی حصہ کام کرنا چھوڑدیتا ہے یا مریض بے ہوش ہو جاتا ہے اور یہ سب ابتدائی علامات کے ایک دن بعد ہی ہو جاتا ہے ۔ اس بیماری کی تشخیص کے لئے خون کے ٹیسٹ اور ایکسر ے کئے جاتے ہیں ۔ کچھ خاص قسم کے خون کے ٹیسٹ اسلام آباد میں فیڈرل گورنمنٹ کی لیبارٹری میں ہی ہو سکتے ہیں ۔ دماغ اور حرام مغز میں پہنچنے والی بیماری کی تشخیص ct اورMki سکین سے کی جاتی ہیں ۔س کا علاج ایک انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں ہی کیا جا سکتا ہے ۔ مریض کے بلڈ پریشر ٹمریچر اور خون کے نظام کو نارمل حد تک رکھا جا سکتا ہے ۔ مریض کے دفاعی نظام جسے ہم Immune system کہتے ہیں'کی مدد کی جاتی ہے اور مریض آہستہ آہستہ بہتر ہو جاتا ہے۔ جب مریضوں میں یہ بیماری دماغ پر حملہ کر چکی ہو یا جگر کو مسقل نقصان پہنچا چکی ہو ان لوگوں کا مکمل طور پر صحت مند ہونا ممکن نہیں ہوتا ۔
اے ایم ایس جنرل ہسپتال لاہور ڈاکٹر ضیاء اللہ چیمہ نے اس بیماری کی علامات کے متعلق بتایاکہ پہلی سٹیج میں جب وائرس حملہ آور ہوتا ہے ۔ تو۔۔۔
1۔ بخار تیزی سے چڑھتا ہے
2۔ شدیدسر درد ' جسم اور جوڑوں میں دردیں ہو تی ہیں ۔ کمرمیں بھی درد ہوتی ہے ۔
3۔چہرہ سرخ ہو جاتا ہے اور یہ سرخی جسم کے باقی حصہ میں بھی پھیل جاتی ہے ۔
4 ۔ آنکھیں بھی سر خ ہوجاتی ہیں ۔ روشنی اچھی نہیں لگتی اور پانی بہتا ہے ۔ آنکھوں کی حرکت بھی درد پیدا کرتی ہے ۔
5 ۔گردن میں گلٹیاں بھی نمودار ہو سکتی ہیں ۔
6 ۔گردن میں اکڑاؤآجاتا ہے ۔
7 ۔ نیند نہیںآتی ۔
یہ مرحلہ بہت سخت ہوتا ہے اور مریض کی حالت قابل رحم ہو جاتی ہے ۔ جس کی وجہ شدت کا بخا ر اور درد ہے ۔ تین سے چار دنوں میں بخار میں کمی آجاتی ہے اور مریض کی حالت سنبھلنے لگتی ہے۔
اس مرض کا بچاؤصرف اور صرف ڈینگی مچھر سے بچا ؤہے ۔ جہاں جہاں یہ مچھر پیدا ہو وہاں اس کے لئے مچھر مار دواؤں کا استعمال کثرت سے کرنا چاہئے ۔ رات کو جالی لگا کر سونا چاہئے ۔مارکیٹ میں ایسے تیل بھی ہیں جوجسم اور ہاتھوں کے کھلے حصے پر لگانے سے مچھر آپ کو نہیں کاٹتا ۔
وفاقی مشیر طب حکومت پاکستان اور سابق صدر نیشنل کونسل فار طب حکیم رضوان حفیظ ملک (تمغہ امتیاز)نے بتایاکہ اس بیماری کا دوسر انام Dengue Hemorrhagic fevar ہے یعنی وہ بخار جس میں جسم سے خون بھی بہتا ہے ۔ جس کانام ڈینگی ہے ۔ یہ وائرس بھی کئی اقسام کے ہیں ۔ اس بیماری کا پھیلاؤانسانوں میں ایک خاص قسم کے مچھر کی وجہ سے ہوتاہے ۔ اور اس مچھر کا نام Aedes Aegypfi ہے ۔ جب یہ مچھر ایک بیمار شدہ مریض کو کاٹ کر کسی صحت مند شخص کو کاٹتا ہے ۔ تو یہ بیماری پھیل سکتی ہے ۔ یہ بیماری عام طور پر دنیا میں گرم مرطوب علاقوں میں ہوتی ہے ۔ اس بیمار ی کا پھیلاؤ ملیریا کی طرح ہے ۔ بیماری زیادہ تر افریقہ ، انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور انڈیا میں مغربی بنگال کے علاقے میں ہوتی ہے ۔ اس بیماری کی علامات مندرجہ ذیل ہیں ۔
1 ۔ عام طور پر اچانک بخار کا ہو جانا ۔
2۔ سخت سر درد کا ہو نا ۔
3 ۔پٹھوں اور جوڑوں کا درد ہونا ۔
4۔جسم کے کچھ حصوں پر Rashes یا سرخ نشانات کا بڑھ جانا ۔
اس بیماری کی وجہ سے خون کے جو platelets ذرات ہیں ۔ بہت کم ہو جاتے ہیں۔ اور اس کی وجہ سے جسم کے کئی حصوں میں خون بہہ سکتا ہے ۔ اور جلد کے نیچے خون جم جاتا ہے ۔ جس سے یہ سرخ دھبے اور نشانات پڑ جاتے ہیں۔ عام طور پر یہ بیماری چھ یا سات دن تک رہتی ہے اور کئی دفعہ ایک جان لیوا بیماری کی شکل یعنی Dengue shock syndrom اختیار کر لیتی ہے ۔
اب آتے ہیں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی طرف 'وہ اس بارے میں کیا کہتی ہے۔WHOنے اس بیماری کی تشخیص کے لئے مندرجہ ذیل نکا ت بتائے ہیں۔
1 ۔ بخار
2۔ جسم کے کچھ حصوں جیسے منہ دانتوں سے یا معمولی چوٹ لگنے سے خون کا بہنا یا جلد کے نیچے خون کا جم جانا
3۔پلیٹلیٹس Plateletsکی خون میں مقدارکا انتہائی کم ہونا۔ خون کا گاڑھا ہو جانا ۔
اس کے علاوہ خاص بلڈ ٹیسٹ جیسے PCR کے ذریعے بھی بیماری کی تشخیص کی جاسکتی ہے۔
اس بیماری کا علاج مندرجہ ذیل طریقوں سے کیا جا سکتا ہے ۔
1 ۔ مریض کو Supportive therapy دی جاتی ہے ۔
2۔مریض سے کہا جاتا ہے کہ وہ پانی اور دوسرے مشروبات کا استعمال زیادہ سے زیادہ رکھے ۔
3 اگر مریض زیادہ کھا پی نہ سکے تو پھرDrip لگانی چاہئے۔
4 ۔ اگر Plateletsبہت کم ہو جائیں تو جس سے خون جاری ہونے کا احتمال ہو تو اس صور ت میں Platelets کی Drip لگانا بہت ضروری ہے ۔plateletsکی Drip بلڈ بنک سے حاصل کی جاسکتی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ Prevention is better than cure یعنی بیماری سے بچا ؤاس کے علاج سے بہتر ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم اس مچھر Aedes Aegypti کو بڑھنے پھولنے سے مکمل طور پر روک دیں ۔ سب سے اہم بات ایسی جگہوں پرا سپرے کی ہے ۔ جہاں مچھر پیدا ہوتے ہیں ۔ اسی طرح سے جہاں بھی پانی کھڑا ہو جائے ، وہاں پانی کو کھڑا نہ ہو نے دیاجائے ۔ جہاں ایسا ممکن نہ ہو وہاں فورا سپر ے کیا جائے ۔ گھروں میں مچھر کے بچا ؤکی تدابیر کرنی چاہیئں ۔ جن میں مچھر دانی یعنی Mosquite net کا استعمال بہت ضروری ہے۔
طب یونانی( اسلامی ) یا ہربل سسٹم آف میڈیسن اس مرض کے علاج کے حوالے سے دیگر طریقہ ہائے علاج کی طرح خاموش نہیں بلکہ دنیا بھر کے معالجین کی راہنمائی کرتا ہے اور جدید طریقہ ہائے علاج کے معالجین بھی اس سے استفادہ کر رہے ہیں ۔کنسلٹنٹ فیملی فزیشن اوریونانی میڈیکل آفیسر کی حیثیت سے میری پریکٹس' تحقیق و کلینکل ٹرائلز کے مطابق شہدڈینگی فیور کے لیے ایک بہترین علاج ہے۔ایک چمچ شہد ایک کپ نیم گرم پانی میں ملا کر صبح نہار منہ جبکہ دوپہر و رات کھانے سے ایک گھنٹہ قبل استعمال کرنا چاہئے۔پروپولس(رائل جیلی) جو کہ شہد کی مکھی کے چھتے سے نکلتا ہے ایک طاقتوراینٹی انفیکشن 'اینٹی بیکٹیریل اور اینٹی وائرل ہے ۔یورپ میں یہ عام دستیاب ہے لیکن وطن عزیز میں ہم اسے شہدنکالے چھتے سے حاصل کر سکتے ہیں ۔اس چھتے کے تین تین گرام کے پیس کاٹ لیں اور ایک ٹکڑا صبح دوپہر شام اور رات'دن میں چار مرتبہ چبا کر رس چوس لیں ۔پروپولس کی مطلوبہ مقدار حاصل ہو جائے گی ۔اس سے قوت مدافعت میں زبردست اضافہ ہو جاتا ہے جس سے ڈینگی وائرس زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتا۔پپیتے کے پتے بھی اس مرض کا شافی علاج ہیںپپیتے کے دو تازہ پتے یا ان کا رس صبح شام پینے سے Plateletsحیران کن طور پرچند گھنٹوں میں بہتر ہو جاتا ہے۔اس کے علاوہ کالی مرچ'کلونجی 'چرائتہ'افسنتین ہر ایک دس گرام باریک پیس لیںاور ایک گرام دن میں تین مرتبہ صبح دوپہر شام اجوائن و پودینے کے قہوے سے ڈینگی بخار کے مریض استعمال کریں۔ڈینگی فیور سے متاثرہ افراد وٹامن کے'وٹامن بی اور وٹامن سی پر مشتمل خوراک کا استعمال کریں۔چاول 'مونگ کی دال 'کھچڑی'شلجم 'چقندر'گاجر بند گوبھی'کریلا'انار'سنترہ'مسمی'میٹھااور امروداس مرض میں مفید غذا ہے۔احتیاط علاج سے بہتر ہے لہذا احتیاطی تدابیر کے طور پر سرکہ اور پیاز کا استعمال کر کے ڈینگی وائرس سے بچا جا سکتا ہے۔ کا فور گھر میں مختلف جگہوں پر رکھیں نیز کسی تیل یا کریم وغیرہ میں شامل کر کے جسم پر لگائیں مچھر قریب نہیں آئیں گے۔ اس کے علاوہ ڈینگی مچھروںسے بچاؤ کیلئے لیمن گراس کو گھروں میں رکھا جائے ۔یہ پودا سنگاپورسمیت دیگر ممالک میں ڈینگی وائرس سے بچاؤ کے طور پرموثر ثابت ہوچکا ہے۔
###

۔٭تحریر مصنف کا حوالہ دے کر شایع و نشر کی جا سکتی
ہے۔٭

61cpk97qgx.jpg

٭…٭…٭
یہی مضمون نوائے وقت سنڈے میگزین میں ملاحظہ فرمانے کےلیے کلک کیجئے
٭…٭…٭
یہی مضمون روزنامہ انصاف سنڈے میگزین میں ملاحظہ فرمانے کےلیے کلک کیجئے
٭…٭…٭
یہی مضمون روزنامہ اسلام میں ملاحظہ فرمانے کےلیے کلک کیجئے
٭…٭…٭
اس کے علاوہ پاک و ہند کے 90 سے زاءد اخبار و جرائد میں ملاحظہ فرمائیں
٭…٭…٭
 

ساجد

محفلین
حکیم صاحب کی ایک مفید تحریر۔ دیگر احباب تک اس کی رسائی ممکن کیجئیے تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ مستفید ہو سکیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
آج ایک پیغام موصول ہوا ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہے :

ڈاکٹر ندیم علی مائیکروبیالوجسٹ، قائد اعظم یونیورسٹی نے یہ ثابت کیا ہے کہ سیب کے جوس میں لیمن کے چند قطرے ملا کر ڈینگی وائرس کے مریض کو پلایا جائے تو اس سے پلیٹیلٹس کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ ڈینگی وائرس کا آزمودہ علاج ہے۔
 
حکیم خالد صاحب آپ نے اچھی معلومات پیش کی ہے، جس سے لوگ مستفید ہوں گے۔ مزید یہ عرض کروں کہ ریہائیڈریشن یعنی بدن میں پانی کی کمی کا تدارک کرنے کے ساتھ ساتھ علامات میں تخفیف کے لئے دافع بخار اور دافع درد کے طور پر صرف پیراسیٹامول ہی استعمال کی جائے کیونکہ دوسری اینالجیسک اینی پائیریٹک دوائیں معدہ یا آنتوں میں زخم پیدا کرنے کا باعث بنتی ہیں جن کی وجہ سے جریان خون (ہیمریج) کا خوف بڑھ جاتا ہے، اس لئے دوسری دوائیں ہرگز استعمال نہ کریں۔
 

عسکری

معطل
بہت اچھی تحریر ہے جناب امید ہے ممبران اسے مزید لوگوں تک پہنچائیں گے ۔ ویسے ڈینگی بڑا وائرس ہے یا زرداری ؟
 

زونی

محفلین
بہت شکریہ مفید معلومات دینے کیلئے ۔۔۔۔۔

بقول خادم پنجاب لاہور کے دس ٹاؤنز میں دن رات سپرے کیا جا رہا ھے ،،، اللہ جانے وہ کونسے ٹاؤنز ہیں :rolleyes:
 

hakimkhalid

محفلین
ڈینگی بخارکے مریض تازہ جوس اور پھل زیادہ استعمال کریں:حکیم قاضی خالد

گھروں میں گوگل اور ہرمل کاقدیم ہربل اسپرے کیا جائے:کونسل آف ہربل فزیشنز

لاہور:تازہ جوس اور پھلوں کا استعما ل نہ صرف غذائی کمی کو دور کرتاہے بلکہ ‘’بلڈ پلیٹ لیٹس’’ اور قوت مدافعت میں اضافہ کرکے ڈینگی بخار کی مرض کو جلد ختم کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے جس کی تصدیق و تائید پاکستان سمیت دنیا بھر کے تمام طریقہ علاج کے معالج کر چکے ہیں۔اس امر کا اظہار مرکزی سیکرٹری جنرل کونسل آف ہربل فزیشنز پاکستان اور یونانی میڈیکل آفیسر حکیم قاضی ایم اے خالد نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا ۔انہوں نے کہا کہ مصیبت کے اس وقت میں تمام طریق علاج کے معالجین کو بغیر کسی تعصب کے متحد ہوکر اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ایک سوال کے جواب میں حکیم خالد نے کہا کہ ڈینگی فیور کے نوے فیصد مریض نظام انہضام کی خرابی’متلی اور قے کی وجہ سے ٹھوس غذا کھانے سے عاری ہوتے ہیں۔ایسے میں سیب’ اناریا دیگر پھلوںکے فریش جوسز انتہائی مفید ثابت ہوتے ہیں یہاں یہ یاد رہے کہ ڈبہ بند فلیورڈ جوس نقصان دہ ہیں۔اسی طرح دیگر موسمی پھل انگور ‘سردا’گرما’میٹھااور پپیتہ وغیرہ نہ صرف غذائی کمی کو دور کرتے ہیں بلکہ ‘’پلیٹ لیٹس’’ اور قوت مدافعت میں اضافہ کرکے مرض کو جلد ختم کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیںلیکن جوسز کا استعمال مکمل علاج کے متبادل کے طورپر نہیں بلکہ معاون کے طور پر لینا چاہئے۔پپیتہ کے استعمال کے حوالے سے سوال کے جواب میں قاضی خالد نے کہا کہ سری لنکن میڈیکل ٹیم کے سربراہ ڈاکٹرہسیتھا ٹیسیرانے بھی اسے یکسر مسترد نہیں کیا۔پپیتہ متلی ‘قے اور دیگر معدہ کے امراض میںسائنسی طور پر شفایاب ثابت ہوا ہے۔لہذا اگر اسے علاج کے طور پر نہ بھی لیا جائے توبھی ڈینگی مریضوں کیلئے یہ ایک اچھی صحت بخش غذا ہے۔ڈینگی فیور سے متاثرہ افرادکیلئے وٹامن کے’ وٹامن بی اور وٹامن سی پر مشتمل خوراک مفید ہے۔یونانی میڈیکل آفیسر نے کہا کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے لہذا احتیاطی تدابیر کے طور پرسرکاری مچھر مار اسپرے کا انتظار کرنے کی بجائے صدیوں سے آزمودہ’ جسے دنیا کا پہلا گھریلوہربل اسپرے قرار دیا جا سکتا ہے ‘اپنی مدد آپ کے تحت خود گھروں میں کر لیا جائے۔یہ صرف دو اجزاء ہرمل اور گوگل پر مشتمل ہے یہ اسپرے جلتے ہوئے کوئلوں پر مذکورہ اشیا ء چھڑک کر کیا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ کا فور گھر میں مختلف جگہوں پر رکھیں نیز کسی تیل یا کریم وغیرہ میں شامل کر کے جسم پر لگائیں مچھر قریب نہیں آئیں گے۔عوام الناس سے درخواست ہے کہ اپنی دوکانداریاں چمکانے والے نام نہاد حکماء کی بجائے ڈینگی بخارکے علاج کیلئے کوالیفائیڈتعلیم یافتہ’بی ای ایم ایس یونانی گریجوایٹ ‘پوسٹ گریجوایٹ اطبا ء سے رجوع کریں۔
ماخذ
 

hakimkhalid

محفلین
وائرل ڈیزیزز کا علاج صرف اور صرف قوت مدافعت بڑھا کرہی کیا جا سکتا ہے، حکیم قاضی ایم اے خالد


ڈینگی بخار سمیت تمام وائرل ڈیزیزز کا کامیاب علاج طب یونانی میں صدیوں سے رائج ادویات اور پھلوں سے قوت مدافعت بڑھا کر کیا جا سکتا ہے۔ عوام کے مسئلہ صحت کے حل کیلئے تمام منصوبہ ہائے صحت میں طب یونانی کوبھی شامل کیا جائے۔ اس امر کا اظہار مرکزی سیکرٹری جنرل کونسل آف ہربل فزیشنز پاکستان اور یونانی میڈیکل آفیسر حکیم قاضی ایم اے خالد نے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ یاد رکھنا چاہئے کہ تغیر پذیر وائرل ڈیزیزز نے ایلو پیتھک طریق علاج یعنی علم الجراثیم کے پیروکاروں کو چکرا کر رکھ دیا ہے اگر وہ وائرس کو ختم کرنے کے لئے اینٹی بایوٹک کا استعمال کرتے ہیں تو میزبان انسانی خلیہ بھی تباہ ہوتا ہے یعنی انسان ہی ختم ہوجاتا ہے اور یہی ہوا جب ڈینگی کے مریضوں کو ناسمجھ ایلوپیتھک ڈاکٹرز نے اینٹی بایوٹک ادویات استعمال کروائیں تو اموات میں یکدم اضافہ شروع ہوگیااور پھر وائرس کو ختم کرنے کی بجائے صرف پیراسیٹامول پر اکتفا کیا گیا تو اموات کنٹرول ہوئیں۔یہاں فطری طریق علاج طب یونانی کی راہنمائی کام آئی کہ مدافعتی نظام کے غلبہ کےلئے ایمیون سسٹم کو طاقتور بنایا جائے وائرس خود ہی معدوم ہو جائے گامغربی ماہرین اسی نہج پر سوچ رہے ہیں لیکن افسوس کاٹھے انگریزیہ بات سمجھنے سے عاری ہیں ۔حکیم قاضی ایم اے خالد نے کہا کہ فطرت کو جھٹلانا اپنے آپ کو جھٹلانا ہے۔طب یونانی فطری طریق علاج ہے اور قدرت کے بنائے ہوئے انسان کو زیادہ سمجھتا ہے۔نیم حکیمی کا دور ختم ہوا اب یونانی گریجوایٹ ‘پوسٹ گریجوایٹ اطبا کا دور ہے جوملکی و غیرملکی یونیورسٹیوں نیز ان کے شعبہ ہائے مائیکروبیالوجی اورغیرقدرتی طریق علاج کے ماہرین بھی جدید تحقیقات اور وقت کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد صدیوں سے رائج گھریلو علاج ‘پھلوں سے علاج اور یونانی معالجات کی تصدیق کر رہے ہیں تمام تر ترقی کے باوجود وائرل ڈیزیزز سمیت بیشتر امراض میں ایلوپیتھک طریق علاج مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے‘ ڈبلیو ایچ او کی چیئرپرسن مارگریٹ چان اس کا ادراک کررہی ہیں اور دنیا بھر کی حکومتوں کو طب یونانی ہربل سسٹم آف میڈیسنز کو ہیلتھ پراجیکٹس میں شامل کرنے کی ہدائت کر چکی ہیں۔لہذا ایلوپیتھک طریق علاج کے ماہرین کو تعصب سے کام نہیں لینا چاہئے الحمداللہ آج تک میرے چھ ہزار سے زائد طبی مشوروں میں ایک بھی ایسا نہیں‘جس کا ماخذ کلینکل ٹرائلز‘ عالمی ریسرچ اور جی ایم پی نہ ہو۔یہی وجہ ہے کہ سائنسی طور پر اس کی تردید کرنا ناممکن ہے۔
ماخذ
 

hakimkhalid

محفلین
٭۔ ۔ ۔ ڈینگی:مرض کی شدت میں گھریلو ٹوٹکوں کی بجائے ‘فوری ہسپتال رجوع کریں
South Asian News Agency (SANA) ⋅ September 16, 2011 ⋅

لاہور (ثناء نیوز) جان لیواڈینگی فیور کے پچیدہ کیسزیعنی ڈینگی ہیمرجک فیور اور ڈینگی شاک فیور کی شرح ڈینگی پازیٹو مریضوں میںتین سے پانچ فیصد تک ہوتی ہے۔ امراض گردہ وامراض قلب کے مریضوں میں ڈینگی بخار کی پچیدگی بڑھنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔عام ڈینگی فیور خطرناک نہیں اور کم و بیش ایک سے دو ہفتے میں مناسب دیکھ بھال اورگھریلوویونانی علاج سے بھی ٹھیک ہو جاتا ہے۔تاہم ڈینگی بخار کی شدت میں گھریلو ٹوٹکوں پر انحصارکی بجائے فوری طور پر بی ای ایم ایس گریجوایٹ اور پوسٹ گریجوایٹ اطبا‘ڈاکٹریا قریبی ہسپتال رجوع کریں۔اس امر کا اظہار مرکزی سیکرٹری جنرل کونسل آف ہربل فزیشنز پاکستان اور یونانی میڈکل آفیسر حکیم قاضی ایم اے خالد نے نجی ٹی وی چینل سے بات چیت کرتے ہوئے کیا ۔انہوں نے کہا کہ مصیبت کے اس وقت میں تمام طریق علاج کے معالجین کو بغیر کسی تعصب کے متحد ہوکر اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ایک سوال کے جواب میں حکیم خالد نے کہا کہ ڈینگی فیور کے نوے فیصد مریض نظام انہضام کی خرابی‘متلی اور قے کی وجہ سے ٹھوس غذا کھانے سے عاری ہوتے ہیں۔ایسے میں سیب‘ اناریا دیگر پھلوںکے فریش جوسز انتہائی مفید ثابت ہوتے ہیں یہاں یہ یاد رہے کہ ڈبہ بند فلیورڈ جوس نقصان دہ ہیں۔اسی طرح دیگر موسمی پھل انگور ‘سردا‘گرما‘میٹھااور پپیتہ وغیرہ نہ صرف غذائی کمی کو دور کرتے ہیں بلکہ قوت مدافعت میں اضافہ کرکے مرض کو جلد ختم کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔لیکن جوسز کا استعمال مکمل علاج کے متبادل کے طورپر نہیں بلکہ معاون کے طور پر لینا چاہئے۔پپیتہ کے استعمال کے حوالے سے سوال کے جواب میں قاضی خالد نے کہا کہ سری لنکن میڈیکل ٹیم کے سربراہ ڈاکٹرتسیرا نے بھی اسے یکسر مسترد نہیں کیا۔پپیتہ متلی ‘قے اور دیگر معدہ کے امراض میںسائنسی طور پر شفایاب ثابت ہوا ہے۔لہذا اگر اسے علاج کے طور پر نہ بھی لیا جائے توبھی ڈینگی مریضوں کیلئے یہ ایک اچھی صحت بخش غذا ہے۔ڈینگی فیور سے متاثرہ افراد وٹامن کے‘ وٹامن بی اور وٹامن سی پر مشتمل خوراک کا استعمال کریں۔یونانی میڈیکل آفیسر نے کہا کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے لہذا احتیاطی تدابیر کے طور پرسرکاری مچھر مار اسپرے کا انتظار کرنے کی بجائے صدیوں سے آزمودہ جسے دنیا کا پہلا گھریلوہربل اسپرے قرار دیا جا سکتا ہے ‘اپنی مدد آپ کے تحت خود گھروں میں کر لیا جائے۔یہ صرف دو اجزاء ہرمل اور گوگل پر مشتمل ہے یہ اسپرے جلتے ہوئے کوئلوں پر مذکورہ اشیا ء چھڑک کر کیا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ کا فور گھر میں مختلف جگہوں پر رکھیں نیز کسی تیل یا کریم وغیرہ میں شامل کر کے جسم پر لگائیں مچھر قریب نہیں آئیں گے۔عوام الناس سے درخواست ہے کہ اپنی دوکانداریاں چمکانے والے نام نہاد حکماء کی بجائے ڈینگی بخارکے علاج کیلئے یونانی گریجوایٹ ‘پوسٹ گریجوایٹ اطبا ء سے رجوع کریں جو الحمداللہ اب پاکستان میں بھی دستیاب ہیں۔#

ماخذ
 

hakimkhalid

محفلین
آج ایک پیغام موصول ہوا ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہے :

ڈاکٹر ندیم علی مائیکروبیالوجسٹ، قائد اعظم یونیورسٹی نے یہ ثابت کیا ہے کہ سیب کے جوس میں لیمن کے چند قطرے ملا کر ڈینگی وائرس کے مریض کو پلایا جائے تو اس سے پلیٹیلٹس کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ ڈینگی وائرس کا آزمودہ علاج ہے۔

بطور غذا بہت بہتر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔تاہم صرف اسی پر انحصار غیرمناسب ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top