عالمی دھشت گرد: امریکہ

فواد اپ نے فرمایا "گر دليل کی حد تک سفارتی استثنی کا معاملہ ايک طرف رکھ ديا جائے تو اس صورت ميں بھی حقيقت يہی ہے کہ سفارت کار کی جانب سے اٹھايا جانے والا قدم اپنی جان کی حفاظت کے ليے اس موقع پر ليا گيا جب دو مسلح ڈاکوں کی جانب سے کاروائ کی گئ۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ يہ ايک افسوس ناک واقعہ جس کے نتيجے ميں زندگيوں کا ضياع ہوا۔"

یہی عمل ہے جو دھشت گردی کے زمرے میں اتا ہے۔ اپ نے یہ فیصلہ کیسے کیا دھشت گرد ریمنڈ پر کوئی حملہ ہوا تھا؟ اگر ہواتھا تو دھشت گرد نے دونوں کو پیچھے سے گولیاں کیوں ماریں؟ ابھی پاکستانی پولیس نے کوئی انوسٹیگیشن پوری نہیں کیں۔ عدالت نے اپنا فیصلہ نہیں سنایا مگر اپ نے حکومت نے فیصلہ سنادیا ہے دو پاکستانی جرائم پشہ افراد نےحملہ کیا اور ریمنڈ نے دفاع کیا۔
پھر
اپ کی حکومت وہ گاڑی اور ان دھشت گردوں کو پاکستانی حکومت کے حوالے کیوں نہیں کرتی جو امریکی سفارت خانے میں ہیں یا امریکہ اسمگل کردیے گئے ہیں
جناب یہ کھلی کھلی دھشت گردی ہے۔
خدارا اپنی ضمیر کی اواز بھی سنیں۔
 
محترم فواد صاحب!
میری اپ سے ایک گزارش ہے۔ مگر گزارش سے پہلے تہمید یہ ہے کہ ہم امریکہ کو انسانی حقوق کا علمبردار سمجھتے رہے ہیں۔ امریکہ جہموریت کا بھی حامی ہے ۔ انسانی غلامی ختم کرنے میں بھی امریکہ کا اچھا کردار ہے ۔ مگر موجودہ امریکی پالیسی دھشت گردارنہ ہے ۔ یہ پالیسی بدلنے کی ضرورت ہے ورنہ امریکہ اپنی قوت کھو بیٹھے گا۔ امریکہ اپنی علامتی برتری بھی کھورہا ہے اور حقیقی برتری بھی کھودے گا۔ امریکہ اہلکار اگر دھشت گردی میں ملوث ہیں تو انھیں سزا دیں اور اس دھشت گردی کی پالسیی کو بدلیں اسی میں امریکہ کا بھلا ہے۔ براہ کرام یہ گزارش اپنے افسران بالا کو پہنچادیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
امریکہ کے نمکخواروں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ آخر میں امریکہ طوطے کی طرح آنکھیں کیسے پھیر لیتا ہے۔ شاہ ایران کے ساتھ کیا ہوا اور اب حسنی مبارک کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
 

فرخ

محفلین
ہمت بھائی
سب سمجھتے ہیں کہ جب مفت کی امدادیں کھاؤ گے، تو غلامی کے بھرم بھی رکھنے پڑیں گے۔ اور طاغوت کی غلامی میں کبھی عزت نہیں ملتی، بلکہ ذلت و رسوائی ہی ملتی ہے۔

ریمنڈ کے کیس میں یہ بات بھی سامنےآئی ہے کہ پہلے شائید انکا ویزا سفارت کار کا نہیں تھا بعد میں اسے تبدیل کیا گیا تھا۔ وہ شائید پہلے حکومت امریکہ کا ٹھیکیدار تھا ۔ اسکا کارڈ دراصل دنیا یا سماء ٹی وی کے اہلکاروں کے ہاتھ لگ گیا تھا

بہرحال، امریکہ کی بدمعاشی کافی کھُل کر سامنے آئی ہے
اور مجھے اپنے حکمرانوں سے کوئی اُمید نہیں ہے اچھائی کی۔

یہ پیسے اور سرمائیہ دار جمہوریت مسلمانوں کو کبھی راس نہیں آسکتی۔۔۔۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

امريکی حکومت کی جانب سے سفارت کار کی رہائ کے لیے بار بار اصرار اور مسلسل درخواست پاکستان کے رائج عدالتی نظام پر امريکی حکومت کے اعتماد کا آئينہ دار نہيں ہے۔ حقيقت يہی ہے کہ امريکہ سفارت کار کو سفارتی استثنی حاصل ہے جو کہ ايک باہمی طور پر منظور شدہ عالمی قانون اور دونوں ممالک کے مابين طے شدہ پاليسی کے عين مطابق ہےجس کے تحت يہ يقينی بنايا جاتا ہے کہ سفارت کاروں کو محفوظ راستہ ديا جائے اور ميزبان ملک کے قوانين کے تحت ان کے خلاف قانونی کاروائ ممکن نہيں رہ جاتی۔ جيسا کہ ميں نے پہلے کہا کہ سال 1961 ميں سفارتی تعلقات کے حوالے سے ويانا ميں ہونے والے کنونشن ميں اسے ايک عالمی قانون کی حيثيت سے تسليم کيا گيا تھا جسے امريکہ اور پاکستان نے نہ صرف يہ کہ تسليم کيا ہے بلکہ اس پر دستخط بھی کيے ہيں۔

جو تجزيہ نگار اس معاملے پر امريکہ کے موقف کو دباؤ اور بليک ميلينگ قرار دے رہے ہيں وہ اس ضمن میں پاکستان کی بين الاقوامی ذمہ داری اور ضمانت کو نظرانداز کر رہے ہيں۔

امريکہ سميت دنيا بھر ميں ايسی کئ مثالیں موجود ہيں جب سفارت کاروں نے اپنے سفارتی عہدے کی بنياد پر کاميابی سے سفارتی استثنی جاصل کی ہے۔ اگر سفارتی استثنی قانونی طريقے سے حاصل کی جائے تو اس صورت ميں پوليس واقعے کی نوعيت سے قطعی نظر کاروائ نہيں کر سکتی۔

امريکی حکومت پاکستان کے عدالتی نظام اور رائج قوانين کا احترام کرتی ہے۔ ليکن ہم پورے يقين کے ساتھ يہ سمجھتے ہيں کہ يہ معاملہ پاکستان کے عدالتی نظام کے دائرہ کار ميں نہيں آتا۔ ہم پاکستان کے ساتھ اپنی دوستی اور جاری اسٹريجک تعلقات کو بہت اہميت ديتے ہيں۔ ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہيں کہ اس معاملے کو جلد ازجلد سفارتی سطح پر ڈائيلاگ اور دونوں حکومتوں کے مابين مختلف سطح پر ہونے والے روابط کے ذريعے حل کر ليا جائے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 
فواد۔
معاملہ بنا نہیں۔
عدالتی استشنی کی بات کرکے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ امریکی ایجنٹ نے پاکستانی میں دھشت گردی کا ارتکاب کیا ہے۔ یہ معاملہ براہ راست پاکستانی پولیس اور عدالت کے دائرہ کار میں اتا ہے ۔ میں پاکستانی حکومت کا ترجمان نہیں۔ اپ مزید تفصیلات اور پاکستانی ماہرین کا نقطہ نظر یہاں سے لے سکتے ہیں (لنک)

جو بات اپ نہیں کررہے اور اپ سے بار بار پوچھا جارہا ہےکہ اپ کی حکومت نے امریکی سفارت خانے میں جو دھشت گرد اور ان کی گاڑیی چھپائی ہوئی ہے اسکو پولیس کی تحویل میں کیوں نہیں دیتے؟ یا ایک خبر کے مطابق ان کو افغانستان فرار کروادیا ہے؟ اگر وہ پاکستانی پولیس کے حوالے نہیں ہوتے یا افغانستان فرار ہیں تو اپ کا موقف مزید کمزور ہوتا ہے کہ ان دھشگردوں کو سفارتی استثنی حاصل تھا۔ اگر تھا تو یہ ان کو پولیس کے حوالے کرکے یہ استشنی کیوں حاصل نہیں کیا؟
 

شمشاد

لائبریرین
فواد آپ ہر دفعہ اس شخص کا ذکر گول کر جاتے ہیں جو ٹریفک کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یکطرفہ سڑک پر جعلی نمبر پلیٹ لگا کر گاڑی کو اندھا دھند دوڑاتا ہوا آیا اور اس نے کچھ لوگوں کو زخمی کیا اور ایک موٹر سائیکل سوار کی جان لی۔ کیا یہ بھی آپ کے نزدیک جائز ہے۔ مزید یہ کہ انصاف کے ٹھیکیداروں نے باوجود بار بار کہنے کے نہ تو وہ گاڑی پاکستانی پولیس کے حوالے کی اور نہ ہی اُس ڈرائیور کو پولیس کے سامنے پیش کیا۔
 

فرخ

محفلین
اور ویسے بھی اگر ہماری حکومت مزید بے غیرتی اور غداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ریمینڈ جیسے دھشت گرد اور قاتل مجرم کو چھوڑ بھی دے، تو کوئی نئی بات نہیں۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہونے والے ڈرون حملوں میں ہزاروں معصوم افراد شہید ہوچکے ہیں جن میں عورتیں، بچے اور بوڑھے شامل ہیں۔ اور یہ سب پاکستان کی غدار اور بے غیرت حکومت کے کرتوتوں کا نتیجہ ہے۔

تو اگر یہ ریمنڈ کو چھوڑ بھی دیں، تو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ زیادہ سے زیادہ حکومت یہی کر سکتی ہے کہ جن کو ریمنڈ نے مارا ہے انہیں دھشت گرد قرار دےدے۔۔۔

اس سے ویسے ہماری عوام کو بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یہ بے وقوف تھے، ہیں اور رہیں گے۔۔ جب تک اپنے سر پر نہ ڈنڈا پڑے
 

فرخ

محفلین
فواد صاحب
ریمنڈ کے کیمرے سے جو حساس اور بہت اہم علاقوں کی تصاویر برآمد کی گئیں ہیں، ان کے بارے میں کیا کہیں گے آپ؟
یہ سفارت کار کس قسم کے کام کررہا تھا یہاں؟
کیا جاسوسی اور ہمارے ملک کے اہم علاقوں کی معلومات اور رپورٹیں، اور غیر قانونی اسلحہ وغیرہ لے کر پھرنا سفارت کاری کا حصہ ہے؟ اگر ہاں تو پھر پاکستانی سفارت کاروں کو امریکی ایٹمی تنصیبات کے اسی قسم کے معانئیے کی اجازت ہونی چاہئیے نا؟
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

فواد صاحب
ریمنڈ کے کیمرے سے جو حساس اور بہت اہم علاقوں کی تصاویر برآمد کی گئیں ہیں، ان کے بارے میں کیا کہیں گے آپ؟
یہ سفارت کار کس قسم کے کام کررہا تھا یہاں؟

ميں نے واضح کيا تھا کہ سيکرٹری کلنٹن نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران لاہور ميں امريکی ويزہ کونسل کے آغاز کا باقاعدہ اعلان کيا تھا۔ اس اقدام کا مقصد لاہور کے شہريوں کے ليے امريکی ويزہ کے حصول کے عمل ميں آسانی پيدا کرنا ہے۔ اس اضافی سہولت کی دستيابی کے پيش نظر امريکی سفارت خانے کے عملے کی لاہور ميں موجودگی اور ان کی تعداد ميں اضافہ کوئ غير معمولی واقعہ يا اچنبے کی بات نہيں ہے۔

ميں کسی امريکی شہری يا سفارت کار کی جانب سے شہر لاہور ميں کيمرے سے تصاوير بنانے کے عمل کو سازش سے تعبير کرنے کی منطق سمجھنے سے قاصر ہوں۔ جب مجھے واشنگٹن شہر ميں ملازمت ملی تھی تو ميں نے بھی شہر ميں ايک دن مختلف تاريخی مقامات اور اہم عمارات کی تصاوير لينے ميں صرف کيا تھا۔ بلکہ حقیقت يہ ہے کہ واشنگٹن ميں تو غير ملکيوں کی جانب سے وائٹ ہاؤس سميت اہم مقامات کی تصاوير اتارنا روز کا معمول ہے۔

ميں نے امريکی سفارت کار کی جانب سے مبينہ طور پر اتاری گئ تصاوير اور پاکستانی میڈيا پر ان کی تشہير ديکھی ہے۔ ان تصاوير ميں کوئ بھی غير قانونی يا مشتبہ چيز نہيں ہے۔ يہ ان تصاوير سے مختلف نہيں ہيں جو لاہور ميں سياح اکثر اپنے کيمرے ميں محفوظ کرتے رہتے ہيں۔

کسی امريکی شہری يا سفارت کار کی جانب سے شہر لاہور ميں تصاوير اتارنے کے عمل کو سازش قرار دينا محض بال کی کھال اتارنے کے مترادف ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

شمشاد

لائبریرین
میں اپنا سوال پھر دہراتا ہوں :

فواد آپ ہر دفعہ اس شخص کا ذکر گول کر جاتے ہیں جو ٹریفک کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یکطرفہ سڑک پر جعلی نمبر پلیٹ لگا کر گاڑی کو اندھا دھند دوڑاتا ہوا آیا اور اس نے کچھ لوگوں کو زخمی کیا اور ایک موٹر سائیکل سوار کی جان لی۔ کیا یہ بھی آپ کے نزدیک جائز ہے۔ مزید یہ کہ انصاف کے ٹھیکیداروں نے باوجود بار بار کہنے کے نہ تو وہ گاڑی پاکستانی پولیس کے حوالے کی اور نہ ہی اُس ڈرائیور کو پولیس کے سامنے پیش کیا۔
 

فرخ

محفلین
شائید آپ کو کافی باتیں گول کر جانے کی عادت ہے یا اصل حقیقت کو گول کرنا آپ کی ڈیوٹی میں شامل ہے۔
وہ تصاویر عام شائید اسلئیے ہیں ان میں کافی تعداد میں بھینسیں اور کھیت وغیرہ ہیں یا گاؤں کو جاتی ہوئی سڑکیں ہیں،

مگر یہ تو آپ کو بھی پتا ہوگا کہ جن راستوں اور علاقوں کی وہ تصاویر لی گئی ہیں ان میں سرحدی علاقے میں شامل ہیں اور وہ بھی جو پاکستان آرمی کی انسٹالیشن کے آس پاس کے ہیں اور خاص طور پر ہندوستان کے ساتھ سرحدی علاقے سے منسلکہ علاقوں میں آرمی کے انسٹالیشن کے علاقے ہیں۔

اور یہ مت کہئیے گا کہ آپ کے پاس سٹیلائٹ ٹیکنالوجی ہے ریمنڈ کو ایسی تصاویر لینے کی کیا ضرورت تھی؟

اور کسی بھی دھشت گرد کو ایسی ہی معلومات درکار ہوتی ہیں اپنے ٹارگٹ تک پہنچنے کے لئے۔
ہم یہ کیسے بھول جائیں کہ ریمنڈ کے پاس جی پی ایس سے متعلقہ آلات بھی تھے، بغیر لائسنس کے اسلحہ بھی ۔ اور وہ امریکی آرمی کا ایک بہت اہم حصہ رہا ہے۔
اور پاکستان میں بلیک واٹر کی موجودگی اور امریکیوں کی اس سے نظر اندازی بھی نہیں بھولی جاسکتی۔۔

اور ہم امریکی سی آئی آے، موساد، اور را کے گٹھ جوڑ سے ہمارے علاقہ غیر اور بلوچستان میں ہونی والی شورش اور خود کش حملہ آوروں کی تربیت اور دیگر دھشت گردانا کاروائیوں سے بخوبی آگاہ ہیں، بلکہ آپ کے اپنے ملک کے لوگ بھی اس سے آگاہ ہیں۔ اور انکا اکثر ٹارگٹ پاکستان آرمی اور دیگر فورسز ہی ہوتی ہیں۔

فواد صاحب، آپ اتنے بھولے تو نہیں ہیں، جتنا کہ بل کلنٹن اور بش ہیں؟

ميں نے واضح کيا تھا کہ سيکرٹری کلنٹن نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران لاہور ميں امريکی ويزہ کونسل کے آغاز کا باقاعدہ اعلان کيا تھا۔ اس اقدام کا مقصد لاہور کے شہريوں کے ليے امريکی ويزہ کے حصول کے عمل ميں آسانی پيدا کرنا ہے۔ اس اضافی سہولت کی دستيابی کے پيش نظر امريکی سفارت خانے کے عملے کی لاہور ميں موجودگی اور ان کی تعداد ميں اضافہ کوئ غير معمولی واقعہ يا اچنبے کی بات نہيں ہے۔

ميں کسی امريکی شہری يا سفارت کار کی جانب سے شہر لاہور ميں کيمرے سے تصاوير بنانے کے عمل کو سازش سے تعبير کرنے کی منطق سمجھنے سے قاصر ہوں۔ جب مجھے واشنگٹن شہر ميں ملازمت ملی تھی تو ميں نے بھی شہر ميں ايک دن مختلف تاريخی مقامات اور اہم عمارات کی تصاوير لينے ميں صرف کيا تھا۔ بلکہ حقیقت يہ ہے کہ واشنگٹن ميں تو غير ملکيوں کی جانب سے وائٹ ہاؤس سميت اہم مقامات کی تصاوير اتارنا روز کا معمول ہے۔

ميں نے امريکی سفارت کار کی جانب سے مبينہ طور پر اتاری گئ تصاوير اور پاکستانی میڈيا پر ان کی تشہير ديکھی ہے۔ ان تصاوير ميں کوئ بھی غير قانونی يا مشتبہ چيز نہيں ہے۔ يہ ان تصاوير سے مختلف نہيں ہيں جو لاہور ميں سياح اکثر اپنے کيمرے ميں محفوظ کرتے رہتے ہيں۔

کسی امريکی شہری يا سفارت کار کی جانب سے شہر لاہور ميں تصاوير اتارنے کے عمل کو سازش قرار دينا محض بال کی کھال اتارنے کے مترادف ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

شمشاد

لائبریرین
ریمنڈ ڈیوس کے ساتھ ایک اور آدمی بھی تھا جسے دوسری گاڑی والے ریسکیو کر کے لے گئے تھے، اس کے ساتھ ہی وہ بہت سی اشیاء بھی اپنے ساتھ لے گئے تھے، لیکن چند ایک چیزیں وہ جلدی میں پھر بھی بھول گئے۔ پولیس جسے پہلے سٹلائیٹ فون سمجھتی رہی وہ اصل میں GPS Decoder ہے جو ملڑی کوڈز کو ڈی کوڈ کرنے کے کام آتا ہے۔

فواد صاحب اس کے متعلق کچھ فرمائیں۔
 

سویدا

محفلین
فواد صاحب ! شمشاد بھائی نے جو سوالات اٹھائے ہیں از راہ کرم ان کی وضاحت فرمادیں
نیز ملا عبد السلام ضعیف قطع نظر اس حیثیت سے کہ وہ طالبان کا نمائندہ تھا طالبان صحیح یا غلط تھے اس سے بھی بحث نہیں لیکن وہ پاکستان میں افغانستان کے باضابطہ سفیر تھے
ان کے پاس حکومت پاکستان کا ویزہ تھا اقوام متحدہ کی طرف سے بھی انہیں اجازت حاصل تھی پھر کیا وجہ ہے کہ انہیں سفارتی استثنی حاصل نہیں تھا اور انہیں امریکہ نے ان کے گھر سے اٹھوا لیا تھا
ملا عبد السلام ضعیف ریمنڈ ہی کی طرح سفارتی حیثیت کے حامل تھے نیز وہ کسی قتل یا واردات میں بھی ملوث نہیں تھے پھر انہیں کیوں ٹارچر کیا گیا
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

فواد صاحب ! شمشاد بھائی نے جو سوالات اٹھائے ہیں از راہ کرم ان کی وضاحت فرمادیں
نیز ملا عبد السلام ضعیف قطع نظر اس حیثیت سے کہ وہ طالبان کا نمائندہ تھا طالبان صحیح یا غلط تھے اس سے بھی بحث نہیں لیکن وہ پاکستان میں افغانستان کے باضابطہ سفیر تھے

ان کے پاس حکومت پاکستان کا ویزہ تھا اقوام متحدہ کی طرف سے بھی انہیں اجازت حاصل تھی پھر کیا وجہ ہے کہ انہیں سفارتی استثنی حاصل نہیں تھا اور انہیں امریکہ نے ان کے گھر سے اٹھوا لیا تھا

ملا عبد السلام ضعیف ریمنڈ ہی کی طرح سفارتی حیثیت کے حامل تھے نیز وہ کسی قتل یا واردات میں بھی ملوث نہیں تھے پھر انہیں کیوں ٹارچر کیا گیا


ان دونوں کيسيز ميں کوئ مماثلت يا قدر مشترک نہيں ہے۔ سب سے پہلی بات تو يہ ہے کہ امريکی حکومت نے افغانستان ميں کبھی بھی طالبان کی حکومت کو تسليم نہيں کيا تھا۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی حمايت سے افغانستان ميں ہونے والی فوجی کاروائ کے بعد افغانستان ميں طالبان کی فعال حکومت کا کوئ وجود نہيں تھا۔

يہ بات نہيں بھولنی چاہيے کہ جس حکومت کی جانب سے کسی سفارت کار کی سفارتی حيثيت کا تعين يا منظوری دی جاتی ہے جب اس حکومت کا اپنا وجود ہی نہ رہے تو اس سفارتی حيثيت کی بھی کوئ اہميت باقی نہيں رہ جاتی۔

ايک جنگی صورت حال يا فوجی غلبے کی صورت ميں جينيوا کنونشن کے سفارتی استثنی سے متعلق قوانين ايک ايسا قانونی معاملہ ہوتا ہے جس پر عمل درآمد ايک سواليہ نشان بن جاتا ہے۔ جب سال 1990 ميں عراق نے کويت پر قبضہ کيا تھا تو کويت ميں موجود غیر ملکی سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو بند کرنے کے ليے اقدامات کيے گئے تھے۔

جہاں تک ملا ضعيف کا تعلق ہے تو پاکستان ميں ان کی گرفتاری کے وقت انھيں سفارتی استثنی حاصل نہيں تھی کيونکہ افغانستان ميں طالبان کی وہ حکومت ہی موجود نہيں تھی جو انھيں يہ سہولت فراہم کر سکتی۔ يقينی طور پر پاکستان ميں گرفتار امريکی سفارت کار کے کيس ميں صورت حال يہ نہيں ہے۔

اس کے علاوہ يہ بات بھی غور طلب ہے کہ امريکی سفارت کار کے برعکس جو کہ اپنی جان بچانے کے حوالے سے ايک واقعے ميں ملوث ہوئے، ملا ضعيف ايک ايسی حکومت کے اعلی عہديداروں کے ساتھ گہرے مراسم رکھتے تھے جو عالمی دہشت گردوں اور مجرموں کو پناہ دينے اور ان کی حمايت کرنے کے جرم ميں شامل تھے۔ يہ ايک ايسی حقيقت ہے جسے اقوام متحدہ نے نہ صرف يہ کہ تسليم کيا بلکہ سرکاری طور پو طالبان کی حکومت کو سيکورٹی کونسل کی کئ قراردادوں کے ذريعے باور بھی کروايا۔

"کومبيٹنٹ اسٹيٹس ريوو" ٹريبيونل کے سامنے الزامات کے حوالے سے جو دستاويز پيش کی گئ تھی اس کے مطابق

گرفتار ہونے والا طالبان کا رکن تھا۔

گرفتار ہونے والے شخص نے يہ خود تسليم کيا تھا کہ اس نے سال 1996 ميں طالبان میں شموليت اختيار کی تھی۔

طالبان کے لیڈر کی جانب سے گرفتار ہونے والے شخص کو اقغانستان کے سنٹرل بنک کا صدر مقرر کيا گيا تھا۔

اس کے علاوہ طالبان کے ليڈر کی جانب سے گرفتار ہونے والے شخص کو افغانستان کی معدنيات اور انڈسٹری سے متعلق وزارت ميں ڈپٹی وزير کے عہدے پر فائز کيا گيا تھا۔

اس کے علاوہ گرفتار ہونے والے شخص کو طالبان حکومت نے کابل ميں ٹرانسپورٹ کی وزارت پر فائز کيا جہاں پر 3 ماہ کام کيا۔

گرفتار ہونے والے شخص کا آخری عہدہ پاکستان ميں طالبان حکومت کے سفير کی حيثيت سے تھا جہاں پر 18 ماہ تک دسمبر 2001 ميں اپنی گرفتاری تک کام کيا۔

طالبان کی تحريک کے ابتدائ دنوں میں طالبان اور القا‏ئدہ کے فعال کمانڈرز افغانستان کے شہر کابل اور گرد ونواح کے علاقوں سے گرفتار ہونے والے شخص کو طالبان کے "ڈپٹی ڈيفنس" کی حيثيت ميں رپورٹ کيا کرتے تھے۔

پاکستان ميں طالبان کے سفير کی حيثيت سے ان کے طالبان کی سينير ليڈرشپ کے ساتھ قريبی تعلقات تھے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

شمشاد

لائبریرین
میں اپنا سوال ایک بار پھر دہراتا ہوں :

فواد آپ ہر دفعہ اس شخص کا ذکر گول کر جاتے ہیں جو ٹریفک کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یکطرفہ سڑک پر جعلی نمبر پلیٹ لگا کر گاڑی کو اندھا دھند دوڑاتا ہوا آیا اور اس نے کچھ لوگوں کو زخمی کیا اور ایک موٹر سائیکل سوار کی جان لی۔ کیا یہ بھی آپ کے نزدیک جائز ہے۔ مزید یہ کہ انصاف کے ٹھیکیداروں نے باوجود بار بار کہنے کے نہ تو وہ گاڑی پاکستانی پولیس کے حوالے کی اور نہ ہی اُس ڈرائیور کو پولیس کے سامنے پیش کیا۔
 
فواد کو اس سوال کرنے سے گھگی بندھ جاتی ہے۔
لہذا ان کی حالت دیکھتے ہوئے میں ہی یہ جسارت کررہا ہوں کہ اس مشکل سوال کا جواب دوں
" میڈیا کے غیر ذمہ دار رویے کی وجہ سے لوگوں کو وہ گاڑی نظر اگئی ورنہ دراصل ایسا واقعہ ہواہی نہیں۔ اس واقعے کے نہ ہونے کی شہادت اقوام متحدہ کے ذریعے پاکستان حکومت اور میڈیا کو کردی گئی تھی مگر پھر بھی میڈیا غیر ذمہ دار رہا۔ باوجود اس کے کہ یہ واقعہ ہواہی نہیں پھر بھی ہمارے اس ادمی کو سفارتی ایمیونٹی حاصل تھی ۔ لہذا اس واقعہ کا ذکر کرنابھی ویانا کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔ اب اگر بار بار اس واقعہ کیا ذکر کیا تو ویانا کنونشن کی خلاف ورزی پر ڈرون بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔
 
ہاں ایک اور بات۔ اگرچہ یہ واقعہ ہوا ہی نہیں مگر ہمارے امریکی ایجنٹ نے عبادالرحمان کو اپنے دفاع میں کچلا تھا۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ميڈيا ميں امريکی انتظاميہ کی جانب سے مبينہ خطرناک نتائج کی دھمکيوں کے حوالے سے جن خبروں کو اجاگر کيا جا رہا ہے، وہ بالکل درست نہيں ہيں۔ بلکہ اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے نے اس ضمن میں باقاعدہ پريس ريليز بھی جاری کر دی ہے جس ميں واضح الفاظ ميں يہ بيان ديا گيا ہے کہ مختلف ميڈيا فورمز پر مذاکرات کی جو تفصيل بيان کی جا رہی ہے وہ حقائق پر مبنی نہيں ہيں۔

يہ پہلا موقع نہيں ہے کہ امريکی حکومت کے عہديدران اور ان کے پاکستانی ہمعصروں کے مابين کسی معاملے پر اتفاق رائے موجود نہيں ہے۔ ماضی ميں ايسی کئ مثالیں موجود ہيں جب باہم ڈائيلاگ اور تعميری گفتگو کے ذريعے دونوں ممالک کے حکام کے مابين افعام وتفہيم کے ساتھ معاملات کو دونوں ممالک کے دور رس اسٹريجيک مفادات کے ليے حل کر ليا گيا۔ يہ کيس بھی ان تعلقات کے حوالے سے مختلف نہيں ہے۔

ہم نے حکومت پاکستان پر اپنی پوزيشن واضح کر دی ہے جو کہ عالمی قوانين اور باہم اتفاق سے منظور شدہ ضوابط کے عين مطابق ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ دونوں حکومتيں اس معاملے ميں ابھی تک کسی حل تک نہيں پہنچ پائ ہيں۔ ليکن يہ امر کسی بھی صورت ميں پاکستان کے عوام کے ساتھ ہمارے ديرينہ تعلقات اور خطے ميں ہمارے سب سے مضبوط اتحادی کے ساتھ طويل المدت اسٹريجک تعلقات کا آئینہ دار نہيں ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 
Top